أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟۔
﴿ اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبر ﴾” کیا تم لوگوں کو نیکی (یعنی ایمان اور بھلائی) کا حکم دیتے ہو؟“ ﴿’ِ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ﴾ اور بھول جاتے ہو اپنے آپ کو“ یعنی تم اپنے آپ کو ایمان اور بھلائی کا حکم دینا چھوڑ دیتے ہو۔ ﴿وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ٠ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم سمجھتے نہیں؟ عقل کو اس لئے عقل کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے فائدہ مند چیز اور بھلائی کا شعور حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے اس چیز سے بچا جاتا ہے جو ضر ررساں ہے، اس لیے کہ عقل انسان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ جس چیز کا حکم دیتا ہے اس پر سب سے پہلے خود عمل کرے اور جس چیز سے روکتا ہے اس کو سب سے پہلے خود ترک کرے۔ پس جو کوئی کسی کو بھلائی کا حکم دیتا ہے اور خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا یا وہ کسی کو برائی سے روکتا ہے اور خود اسے ترک نہیں کرتا تو یہ چیز اس کی جہالت اور اس کے بے عقل ہونے کی دلیل ہے خاص طور پر جبکہ ایسا شخص اس حقیقت کا علم بھی رکھتا ہو۔ پس اس پر حجت قائم ہوگئی۔ ہرچند کہ یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے تاہم اس کا حکم ہر ایک کے لئے عام ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ- كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾( الصف: 61؍ 2۔3) ”اے ایمان والو ! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جس پر عمل نہ کرو۔ “ آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ انسان جس کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے اگر خود اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے رک جائے کیونکہ یہ آیت دونوں واجبات کی نسبت تو بیخ پر دلالت کرتی ہے۔ ورنہ ہمیں معلوم ہے کہ انسان پر دو امور واجب ہیں۔ (1) کسی دوسرے کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ (2) خود اپنے آپ کو نیکی پر آمادہ کرنا اور برائی سے رک جانا۔ ان میں سے ایک چیز کو ترک کرنے سے دوسری چیز کو ترک کرنے کی رخصت لازم نہیں آتی۔ کیونکہ کمال یہ ہے کہ انسان دونوں واجبات پر عمل کرے اور نقص یہ ہے کہ وہ دونوں واجبات کو ترک کر دے۔ رہا ان دونوں واجبات میں سے کسی ایک پر عمل کرنا تو یہ رتبہ کمال سے نیچے اور نقص سے اوپر ہے۔ نیز اس کی وجہ یہ ہے کہ نفوس انسانی کی جبلت میں یہ چیز داخل ہے کہ لوگ اس شخص کی اطاعت نہیں کرتے جس کا قول اس کے فعل کے خلاف ہوتا ہے پس وہ عمل سے عاری اقوال کی نسبت افعال کی زیادہ پیروی کرتے ہیں۔