سورة الحشر - آیت 7

مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

فقہاء کی اصطلاح میں فے سے مراد وہ مال ہے جو حق کےساتھ کفار سے کسی جنگ کے بغیر حاصل کیا جائے،مثلا:وہ مال جسے کفار مسلمانوں کے خوف کی بنا پر چھوڑ کر فرار ہوگئے ۔اس کو فےاس لیے کہا گیا ہے کہ یہ کفار کی طرف سے،جو اس مال کے مستحق نہ تھے،مسلمانوں کی طرف لوٹا ہے،جو اس پر زیادہ حق رکھتے تھے۔ مال فے کا حکم۔ فے کا حکم یہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا :﴿مَآ اَفَاءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰی﴾ ”جو مال اللہ نے بستی والوں سے اپنے رسول کو دلوایا ہے۔“ عمومی طور پر ،خواہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہو یا آپ کے بعد آپ کی امت میں سے اس شخص کا زمانہ ہو جو امارت کے منصب پر فائز ہو ﴿فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَـتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ﴾ ”تو وہ اللہ کے لیے ، اللہ کے رسول کے لیے اور (رسول کے )رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔“ یہ آیت کریمہ اس آیت کریمہ کی نظیر ہے جو سورۃ انفال میں مذکور ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ﴾( الانفال: 8؍41) ”اور جان رکھو! جو چیز تم غنیمت کے طور پر کفار سے حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے اور رسول کے لیے اور (اس کے) قرابت داروں، یتیموں ، مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔ “فے کا مال پانچ اصناف میں تقسیم ہوتا ہے: ١۔ پانچ حصوں میں سے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے جو مسلمانوں کے مصالح عامہ میں صرف ہوتا ہے۔ ٢۔ دوسرا حصہ ذوی القربیٰ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے داروں) کے لئے ہے اور ذوی القربی سے مراد بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب ہیں ،جہاں کہیں بھی ہوں، ان کے مردوں عورتوں میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔ بنوعبد المطلب خمس وغیرہ کے پانچویں حصے میں بنو ہاشم کے ساتھ شریک ہوں گے بقیہ بنو عبد مناف شریک نہیں ہوں گے کیونکہ جب قریش نے بنو ہاشم سے مقاطعت اور عداوت کا معاہدہ کیا تو بنو عبدالمطلب بنو ہاشم کے ساتھ شریک تھے اور دوسروں کے برعکس انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی ۔اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبدالمطلب کے بارے میں فرمایا :”وہ جاہلیت اور اسلام میں کبھی مجھ سے الگ نہیں ہوئے۔“(مسنداحمد:4؍81واصله فی صحیح البخاری،فرض الخمس ،باب ومن الدلیل علی ان الخمس للإمام،حدیث :3140) ٣۔ تیسرا حصہ محتاج یتیموں کے لیے ہے ۔یتیم وہ ہے جس کے باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ہو اور وہ ابھی بالغ نہ ہوا ہو۔ ٤۔ چوتھا حصہ مساکین کے لیے ہے۔ ٥۔ اور پانچواں (آخری) حصہ مسافروں کے لیے ہے ۔اس سے مراد وہ غریب الوطن لوگ ہیں جو اپنے وطن سے کٹ کر رہ گئے ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ حصے اس لئے مقرر فرمائے اور فے کو صرف انہی معین لوگوں میں محصور کردیا ﴿کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَاءِ مِنْکُمْ ﴾ ”تاکہ وہ( مال) تم میں سے دولت مند لوگوں کے ہاتھوں ہی میں گردش نہ کرتا رہے ۔“اور ان کے سوا عاجز اور بے بس لوگوں کو کچھ حاصل نہ ہو۔ اس میں اس قدر فساد ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی شریعت کی اتباع میں اتنی زیادہ مصلحتیں ہیں جو شمار سے باہر ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک قاعدہ کلیہ اور ایک عام اصول مقرر فرمایا :﴿وَمَآ اٰتٰیکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۤ وَمَا نَہٰیکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ﴾ ”رسول جو تمہیں دے ،وہ لے لو اور جس سے وہ تمہیں روک دے ،اس سے رک جاؤ۔ “یہ آیت کریمہ، دین کے اصول فروع اس کے ظاہر وباطن سب کو شامل ہے، نیز یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لے کرآئے ہیں، اس سے تمسک کرنا اور اس کی اتباع کرنا بندوں پر فرض ہے اور اس کی مخالفت کرنا جائز نہیں، نیز اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی چیز کے حکم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نص، اللہ تعالیٰ کی نص کے مانند ہے اور اس کو ترک کرنے میں کسی کے لیے کوئی رخصت اور عذر نہیں اور کسی کے قول کو آپ کے قول پر مقدم رکھنا جائز نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تقوے کا حکم دیا جس سے دنیا وآخرت میں قلب وروح معمور ہوتی ہے ،تقوے ہی میں دائمی سعادت اور فوز عظیم ہے، تقوٰی کو ضائع کرنے میں ابدی بدبختی اور سرمدی عذاب ہے، چنانچہ فرمایا :﴿وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ ”اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ “جو کوئی تقوے کو ترک کرکے، خواہشات نفس کی پیروی کو ترجیح دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سخت عذاب دینے والا ہے۔