حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
حرام کی گئی ہیں (١) تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی لڑکیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں اور تمہارے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا۔ ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا، یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
یہ آیات کریمہ نسبی محرمات، رضاعی محرمات اور سسرالی قرابت کی بنا پر محرمات، جمع کرنے کی بنا پر محرمات اور حلال عورتوں کے احکام پر مشتمل ہیں۔ نسب کے اعتبار سے حرام عورتیں سات ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ (١) ماں : اس میں ہر وہ عورت داخل ہے جس سے آپ پیدا ہوئے ہیں خواہ وہ کتنی ہی دور اوپر چلی جائیں۔ (٢) بیٹی : بیٹی کے رشتے میں ہر وہ عورت داخل ہے جس کو آپ نے جنم دیا ہے۔ (خواہ وہ کس قدر نیچے تک چلی جائیں) (٣) بہن : اس رشتے میں تمام حقیقی، اخیافی (ماں شریک) اور علاتی (باپ شریک) بہنیں شامل ہیں۔ (٤) پھوپھی : ہر وہ عورت جو آپ کے باپ یا دادا کی بہن ہے خواہ وہ کتنی ہی دور اوپر تک چلی جائیں۔ (٥) خالہ : ہر وہ عورت جو آپ کی ماں یا آپ کی نانی کی بہن ہے خواہ کتنی ہی دور اوپر تک چلی جائیں، خواہ وہ وارث ہے یا نہیں ہے۔ (٦، ٧) اسی طرح بھائی کی بیٹیاں (بھتیجیاں) اور بہن کی بیٹیاں (بھانجیاں) خواہ کتنی ہی دور تک نیچے چلی جائیں۔ یہ وہ سات محرمات ہیں جو نسب کے اعتبار سے حرام ہیں اور ان کی حرمت پر علماء کا اجماع ہے جیسا کہ آیت کریمہ کی نص سے ظاہر ہے۔ ان مذکورہ عورتوں کے علاوہ عورتیں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں داخل ہیں ﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذٰلِكُمْ ﴾ (النساء :4؍24) ” ان محرمات عورتوں کے سوا دیگر تمام عورتیں تمہارے لیے حلال کردی گئیں“ مثلاً پھوپھی کی بیٹی، چچا کی بیٹی، ماموں کی بیٹی اور خالہ کی بیٹی۔ جہاں تک رضاعت کے اعتبار سے محرمات کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں رضاعی ماں اور رضاعی بہن کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر اس تحریم میں رضاعی ماں کی ماں بھی شامل ہے حالانکہ حرمت کا باعث دودھ اس کا نہیں بلکہ وہ تو دودھ کے مالک یعنی رضاعی ماں کے شوہر کا ہے۔ یہ تنبیہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رضاعی ماں کا شوہر (یعنی دودھ کا مالک) دودھ پینے والے کا (رضاعی) باپ ہے۔ جب رضاعی باپ ہونا اور ماں ہونا ثابت ہوگیا تو انکی بہنوں وغیرہ اور ان کے اصول و فروع کی حرمت ثابت ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ)) [صحیح مسلم، الرضاع، باب یحرم من الرضاعة ۔۔۔ح :1444 وسنن النسائی‘ النکاح، یحرمن الرضاع‘ ح:4؍ 33] ” جو رشتہ نسب کے اعتبار سے حرام ہے وہ رشتہ رضاعت کے اعتبار سے بھی حرام ہے۔“ پس یہ تحریم دودھ پلانے والی کی جہت سے اور اس کے خاوند کی جہت سے پھیلے گی۔ جیسا کہ وہ تحریم نسبی اقارب میں پھیلتی ہے اور یہ تحریم دودھ پینے والے بچے میں صرف اس کی اولاد تک پھیلے گی۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ بچے نے اپنے دو سال کی عمر میں کم از کم پانچ بار دودھ پیا ہو۔ جیسا کہ سنت نے واضح کیا ہے۔ سسرالی قرابت کے اعتبار سے حرام رشتے چار ہیں۔ باپ دادا کی بیویاں : خواہ وہ کتنی ہی دور اوپر تک چلے جائیں۔ بیٹیوں کی بیویاں : خواہ کتنی ہی دور نیچے تک چلے جائیں، خواہ وہ وارث ہوں یا محجوب۔ بیوی کی ماں : خواہ کتنی ہی دور اوپر تک چلی جائیں۔ یہ تین رشتے مجرد نکاح سے حرام ہوجاتے ہیں۔ چوتھا رشتہ سوتیلی بیٹی کا ہے۔ سوتیلی بیٹی بیوی کے پچھلے شوہر سے بیوی کی بیٹی ہے۔ خواہ کتنی ہی دور نیچے چلی جائیں۔ یہ سوتیلی بیٹی اس وقت تک حرام نہیں ہوتی جب تک کہ اس کی ماں سے خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ﴾ ” اور تمہاری پرورش کردہ وہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول (خلوت صحیحہ) کرچکے ہو۔ “ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم ﴾” جو تمہاری پرورش میں ہیں“ کی قید ہے جس میں غالب احوال کا اعتبار کیا گیا ہے اس کا مفہوم مخالف معتبر نہیں۔ بنا بریں سوتیلی بیٹی خواہ سوتیلے باپ کے گھر میں نہ وہ تب بھی حرام ہے۔ البتہ اس تنقید کے دو فائدے ہیں۔ (اول) اس میں سوتیلی بیٹی کی تحریم کی حکمت کی طرف اشارہ ہے گویا وہ بھی صلبی بیٹی کی طرح ہے۔ لہٰذا اس کی اباحت بہت ہی قبیح بات ہے۔ (ثانی) اس میں اس امر کی دلیل ہے کہ سوتیلی بیٹی کے ساتھ تنہائی اور خلوت جائز ہے کیونکہ وہ صلبی اور نسبی بیٹیوں کی مانند ہے۔ اللہ اعلم۔ رہا ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے سے ممنوع اور حرام رشتے تو اللہ تعالیٰ نے دو بہنوں کو جمع کرنے کا ذکر فرمایا ہے اور ان کے جمع کرنے کو حرام ٹھہرایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی اور اس کی پھوپھی، بیوی اور اس کی خالہ کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنے کو حرام ٹھہرایا ہے۔ پس ہر وہ دو عورتیں جن کے مابین رحم کا رشتہ ہے، اگر ان دونوں عورتوں میں سے ایک کو مرد اور دوسری کو عورت مان لیا جائے تو وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے حرام ہوں، تو ان دونوں کو جمع کرنا حرام ہوگا اور یہ اس لیے کہ اس صورت میں باہم قطع رحمی کے اسباب ہیں۔