سورة الحديد - آیت 14

يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ چلا چلا کر ان سے کہیں گے کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے (١) وہ کہیں گے ہاں تھے تو سہی لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنہ میں پھنسا رکھا (٢) تھا اور وہ انتظار میں ہی رہے (٣) اور شک وشبہ کرتے رہے (٤) تمہیں تمہاری فضول تمناؤں نے دھوکے میں ہی رکھا (٥) یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا ( ٦) اور تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکے رکھنے والے نے دھوکے میں رکھا۔ (٧)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

منافقین اہل ایمان کو پکاریں گے اور رحم کی درخواست کرتے ہوئے نہایت عاجزی سے کہیں گے : ﴿اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ﴾ کیا دنیا میں لاَ اٖلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے میں ہم تمہارے ساتھ نہ تھے، ہم بھی نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے، جہاد کرتے تھے اور تمہارے عمل کرتے تھے؟ ﴿قَالُوْا بَلٰی﴾ مومنین جواب دیں گے : کیوں نہیں ! تم دنیا میں ہمارے ساتھ تھے اور ظاہر میں ہمارے جیسے اعمال بھی بجا لاتے تھے مگر تمہارے اعمال ایمان، سچی اور صالح نیت سے خالی تھے بلکہ ﴿فَتَنْتُمْ اَنْفُسَکُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ﴾’’تم نے خود اپنے آپ کو فتنے میں ڈال لیا تھا، اور تم نے (اہل ایمان کی بابت گردش زمانہ کا)انتظار کیا اور شک کرتے رہے۔‘‘ یعنی تم نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی خبر میں شک کیا جو شک کو قبول نہیں کرتی۔ ﴿وَغَرَّتْکُمُ الْاَمَانِیُّ﴾ یعنی جھوٹی تمناؤں نے تمہیں دھوکے میں رکھا، تم تمنا کرتے تھے کہ تم بھی مومنین کے مقام پر پہنچ جاؤ گے اور حال تمہارا یہ تھا کہ تم دولت یقین سے تہی دامن تھے۔ ﴿حَتّٰی جَاءَ اَمْرُ اللّٰہِ﴾ حتی کہ موت نے تمہیں آلیا اور تمہاری وہی مذموم حالت تھی۔ ﴿وَغَرَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ﴾ ’’تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے والے نے دھوکے ہی میں رکھا۔‘‘ اس سے مراد شیطان ہے جس نے کفر اور شک کو تمہارے سامنے آراستہ کردیا، تم اس پر بڑے مطمئن تھے، تم نے اس کے وعدے پر بھروسا کیا اور اس کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کی۔