وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا
تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کر دے (١) یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکالے (٢)
یعنی عورتیں ﴿وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ ﴾’’جوزنا کا ارتکاب کرتی ہیں“ اللہ تعالیٰ نے زنا کو اس کی قباحت اور برائی کی وجہ سے فاحشہ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ ﴿فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ﴾” اپنے میں سے چار اہل ایمان عادل مردوں کو گواہ بنا لو“ ﴿ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ﴾ ” اگر وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں محبوس کر دو“ اور باہر جانے سے روک دو جو شک و شبہ کا موجب ہے۔ نیز گھر میں محبوس کردینا ایک قسم کی سزا بھی ہے ﴿حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ﴾ ” یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کر دے“ یعنی یہ محبوس رکھنے کی انتہا ہے ﴿أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ انہیں گھروں میں محبوس کرنے کے علاوہ کوئی اور طریقہ مقرر فرما دے۔ یہ آیت کریمہ منسوخ نہیں بلکہ یہ تو اس وقت تک کے لیے غایت مقرر ہے (جب تک اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی اور راستہ نہیں نکال دیتا) اسلام کی ابتدا میں یہی طریقہ رائج رہا جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا متبادل حکم نازل نہیں فرما دیا اور وہ ہے شادی شدہ زانی اور زانیہ کو رجم کرنا اور غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کو کوڑے لگانا۔