سورة الواقعة - آیت 63

أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اچھا پھر یہ بھی بتلاؤ کہ تم جو کچھ بوتے ہو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر احسان ہے جس کے ذریعے سے وہ انہیں اپنی توحید،اپنی عبادت اور اپنی طرف رجوع کی دعوت دیتا ہے کہ اس نے ان کے لیے کھیتی باڑی اور باغات کو میسر کرکے انہیں نعمتوں سے نوازا ہے۔ اس کھیتی باڑی اور باغات سے خوراک،رزق اور پھل مہیا ہوتے ہیں جو ان کی ضرورت،حاجات اور ان کے مصالح میں شمار ہوتے ہیں ۔ان کا شکر ادا کرنا اور ان کا حق ادا کرنا تو کجا، وہ ان نعمتوں کو شمار تک نہیں کرسکتے۔ پس فرمایا ﴿ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ﴾ یعنی کیا تم نے اس کو اگا کر زمین سے نکالا ہے؟ کیا تم نے اس کی نشونما دی ہے؟ کیا تم ہو جنہوں نے اس کے خوشوں اور اس کے پھل کو نکالا، یہاں تک کہ وہ تیار شکل میں اناج اور پکا ہوا پھل بن گیا ؟ یا یہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ہے جو یہ سب کچھ سرانجام دینے میں متفرد ہے اور اسی نے تمہیں ان نعمتوں سے نوازا ہے ؟ تمہارے فعل کی غایت اور انتہا تو بس یہ ہے کہ تم زمین میں ہل چلاتے اور اسے پھاڑ دیتے ہو اور پھر اس میں بیج ڈال دیتے ہو‘ تمہیں کوئی علم نہیں کہ اس کے بعد کیا ہوتا ہے اور اس سے زیادہ پر تمہیں کوئی قدرت واختیار نہیں ،اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگاہ فرمایا کہ کھیتی خطرات کی زد میں رہتی ہے اگر اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرکے، تمہاری گزران اور ایک مدت مقررہ تک استعمال کے لیے اسے باقی نہ رکھ(تا تو یہ کھیتی کبھی محفوظ نہ رہتی۔)