سورة آل عمران - آیت 200

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے ایمان والو! تم ثابت قدم رہو (١) اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لئے تیار رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس چیز کی ترغیب دی ہے جو انہیں فوز و فلاح کی منزل پر پہنچاتی ہے اور وہ ہے سعادت اور کامیابی۔ اس سعادت تک پہنچانے والا راستہ صبر کا التزام ہے اور صبر کیا ہے؟ نفس انسانی کو ایسی چیز پر روکے رکھنا جو اس کو ناپسند ہو، جیسے گناہ کا چھوڑ دینا، مصائب پر صبر کرنا اور نفوس کو ان پر گراں گزرنے والے اوامر پر روکے رکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ تمام امور پر صبر کرنے کا حکم دیا ہے۔ (مصابرہ) صبر کے دائمی اور مسلسل التزام ہے اور تمام احوال میں دشمن کا مقابلہ کرنے کا نام ہے۔ (مرابطۃ) سے مراد اس مقام پر جمے رہنا جہاں سے دشمن کے آنے کا خطرہ ہو۔ نیز یہ کہ اہل ایمان دشمنوں سے ہوشیار رہیں اور ان کو اپنا مقصد حاصل نہ کرنے دیں۔۔۔ شاید وہ فلاح پالیں یعنی دینی، دنیاوی اور اخروی محبوب شے کے حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوجائیں اور اسی طرح ناپسندیدہ چیزوں سے نجات پا لیں۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ صرف صبر، صبر پر دوام اور دشمن سے ہمیشہ ہوشیار رہنا ہی فلاح کا راستہ ہے۔ جس کسی نے فلاح پائی تو اسی راستہ پر چل کر فلاں پائی اور جو کوئی اس فلاح سے محروم ہوا تو ان تمام امور کو یا ان میں سے بعض کو ترک کر کے محروم ہوا۔ واللہ الموفق ولاحول ولا قوة الا باالله۔