كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ
ان سے پہلے قوم نوح نے بھی ہمارے بندے کو جھٹلایا تھا اور دیوانہ بتلا کر جھڑک دیا گیا تھا (١)۔
جب اللہ تبارک وتعالی نے ان لوگوں کا حال بیان فرمایا جنہوں نے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا، نیز یہ بھی ذکر فرمایا کہ معجزات ان کو کوئی فائدہ دیں گے اور نہ ان کے کسی کام آئیں گے تو انہیں متنبہ کیا اور گزری ہوئی قوموں کی سزاؤں سے ڈرایا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا کہ اللہ نے کیسے ان کو ہلاک کردیا اور ان پر عذاب نازل کیا، چنانچہ قوم نوح کا ذکر کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اسی اکیلے کی عبادت کا حکم دیا مگر انہوں نے شرک کو ترک نہ کیا اور کہنے لگے: ﴿وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ﴾( نوح :71؍23) ’’تم اپنے معبودوں کو نہ چھوڑو اور نہ چھوڑو تم ودّ کو سوا کو اور نہ یغوث، یعوق اور نسر کو۔‘‘ حضرت نوح علیہ السلام انہیں شب روز اور کھلے چھپے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے مگر ان میں عناد، سرکشی اور اپنے نبی میں جرح قدح کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ ہوا۔ بنابریں یہاں فرمایا: ﴿فَکَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ﴾ ’’چنانچہ انہوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا اور کہا یہ تو دیوانہ ہے۔‘‘ ان کے زعم باطل کے مطابق ان کے آبا ؤو اجداد جس شرک اور گمراہی کے راستے پر گامزن تھے اسی پر عقل دلالت کرتی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام جو چیز پیش کررہے ہیں وہ جہالت او گمراہی ہے جو پاگلوں ہی سے صادر ہوسکتی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں جھوٹ بولا اور ان حقائق کو بدل ڈالا جو عقلاً اور شرعاً ثابت شدہ تھے، کیونکہ حضرت نوح علیہ السلام جو کچھ لے کر آئے وہ ثابت شدہ حق تھا جو راست رو اور روشن عقل کی رشد وہدایت اور روشنی کی طرف راہ نمائی کرتا تھا اور ان کا موقف محض جہالت اور واضح گمراہی تھا۔ فرمایا: ﴿ وَازْدُجِرَ ﴾ یعنی ان کی قوم نے ان کو زجر وتوبیخ کی اور برا بھلا کہا کیونکہ آپ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی تھی۔ آپ کی قوم نے، اللہ تعالیٰ ان کا برا کرے، آپ پر ایمان نہ لانے اور آپ کی تکذیب کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے مقدور بھر آپ کو اذیتیں بھی دیں تمام انبیا ومرسلین کے دشمنوں کا اپنے نبیوں کے ساتھ یہی وتیرہ رہا ہے۔