أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ
کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔
ان صحیفوں میں بہت سے احکام درج تھے جن میں سے سب سے اہم وہ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا: ﴿اَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی۔ وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی﴾ یعنی ہر عمل کرنے والے کا اچھا برا عمل اسی کے لیے ہے۔ کسی دوسرے کے عمل اور کوشش میں سے اس کے لیے کچھ بھی نہیں اور نہ کوئی کسی اور کے گناہ کا بوجھ اٹھائےگا۔ ﴿وَ اَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرٰي﴾یعنی آخرت میں اسے اس کی کوشش دکھائی جائے گی اور وہ اپنی نیکی اور برائی میں تمیز کر سکے گا۔ ﴿ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَ﴾’’پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘ یعنی تمام اعمال کی کامل جزا۔ خالص نیک عمل کے لیے اچھی جزا ہو گی، خالص برے عمل کے لیے بری جزا ہو گی اور ملے جلے اعمال کی جزا ان کےمطابق ہو گی۔ یہ ایسی جزا ہو گی کہ تمام مخلوق اس کے عدل و احسان کا اقرار اور اس پر اس کی حمد و ثنابیان کرے گی حتیٰ کہ جہنمی جہنم میں داخل ہو رہے ہوں گے مگر ان کے دل اپنے رب کی حمد و ثنا، اس کی کامل حکمت کے اقرار اور اپنے آپ پر سخت ناراضی سے لبریز ہوں گے، نیز وہ اس بات پر ناراض ہوں گے کہ انھوں نے اپنے آپ کو بدترین جگہ پر وارد کیا۔