يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ
بنی اسرائیل (١) میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں اور اپنے احسانات کا ذکر شروع کیا۔ فرمایا : یہاں اسرائیل سے مراد حضرت یعقوب علیہ السلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب بنی اسرائیل کے ان گروہوں سے ہے جو مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں آباد تھے۔ اس خطاب میں بعد میں آنے والے اسرائیلی بھی شامل ہیں۔ پس ان کو ایک عام حکم دیا ہے۔ فرمایا : ﴿ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ﴾” میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیں“ ان نعمتوں میں تمام نعمتیں شامل ہیں۔ ان میں سے بعض کا ذکر عنقریب اس سورت میں آئے گا۔ یہاں ان نعمتوں کے یاد کرنے سے مراد دل میں ان نعمتوں کا اعتراف کرنا، زبان سے ان کی تعریف کرنا اور جوارح کے ذریعے سے ان نعمتوں کو ایسی جگہ استعمال کرنا ہے جہاں اللہ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے۔ ﴿ وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْٓ﴾یعنی وہ اس عہد کو پورا کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا ہے کہ وہ اس پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں گے اور اس کی شریعت کو قائم کریں گے۔ ﴿ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ ﴾” میں تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں گا“ یہ ان کے عہد کے پورا کرنے کا بدلہ ہے۔ اس عہدسےمراد وہ عہد ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے : ﴿وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّـهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّـهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ﴾ (المائدة : 5؍12) ” اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان میں سے ہم نے بارہ سردار مقرر کردیے اور اللہ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے رہو گے، میرے رسولوں پر ایمان لاتے اور ان کی عزت و توقیر کرتے رہو گے اور اللہ کو قرض حسنہ دیتے رہو گے تو میں تم سے تمہارے گناہ دور کر دوں گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، پھر تم میں سے جس نے اس کے بعد کفر کا ارتکاب کیا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا جو وفائے عہد کے حامل ہیں یعنی اس اکیلے سے خوف کھانا اور ڈرنا، کیونکہ جو کوئی اس سے ڈرتا ہے تو یہ ڈر اس کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کا موجب بنتا ہے۔