فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فِي صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ
پس ان کی بیوی آگے بڑھی اور حیرت (١) میں آکر اپنے منہ پر مار کر کہا کہ میں تو بڑھیا ہوں اور ساتھ ہی بانجھ۔
﴿ فَأَقْبَلَتِ ﴾ تو وہ فرحان و شاداں )ان کی طرف( متوجہ ہوئیں ﴿فِي صَرَّةٍ ﴾ چیخ مار کر ﴿فَصَكَّتْ وَجْهَهَا﴾ ” اور انہوں نے )تعجب سے( اپنے چہرے پر ہاتھ مارا۔“ یہ اس نوع کی کیفیت ہے جو خوشی اور مسرت کے ایسے اقوال و افعال کے وقت طاری ہوجایا کرتی ہے جو طبعیت اور عادت کے خلاف ہوا کرتے ہیں ﴿وَقَالَتْ عَجُوزٌ عَقِيمٌ﴾ اور کہا مجھے بیٹا کیوں کرہوسکتا ہے، میں تو ایک بڑھیا ہوں اور ایسی عمر کو پہنچ گئی ہوں جس عمر میں عورتیں بچوں کو جنم نہیں دیتیں، مزید برآں میں تو بانجھ بھی ہوں اور میرا رحم بچوں کو جنم دینے کے قابل نہیں۔ پس یہاں دو اسباب ہیں، دونوں ہی بچے کی ولادت دے مانع ہیں۔ سورۃ ہود میں حضرت سارہ نے ایک تیسرے مانع کا بھی ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَهٰذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ﴾ )ھود : 11؍82( ” میرا یہ شوہر بھی بہت بوڑھا ہے، یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ “