وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو (١) پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے (٢) اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو (٣) اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (٤)
یہ آیت کریمہ، اہل ایمان کو ایک دوسرے پر زیادتی کرنے اور ایک دوسرے سے لڑائی کرنے سے روکنے کو متضمن ہے، نیز یہ کہ جب اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دیگر اہل ایمان پر واجب ہے کہ وہ ان دو گروہوں کے درمیان پڑ کر، جس کے ذریعے سے ان کے مابین صلح ہوجائے اور ان کے درمیان اصلاح کے ذریعے سے، اس بہت بڑے شرکی تلافی کریں اور وہ ذرائع اختیار کریں جو صلح پر منتج ہوتے ہوں۔ اگر وہ دونوں گروہ باہم صلح کرلیں تو بہت اچھی بات ہے ﴿ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللّٰـهِ ﴾ ”اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو، حتیٰ کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرلے۔“ یعنی اس حد کی طرف لوٹ آئیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہے یعنی فعل خیر اور ترک شر اور سب سے بڑا شر آپس میں لڑنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : ﴿ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ ﴾ ” پس جب وہ رجوع کرلے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو۔“ صلح اور صلح میں عدل و انصاف کا حکم ہے، کیونکہ کبھی کبھار صلح تو ہوتی ہے مگر عدل و انصاف پر نہیں بلکہ ظلم اور کسی ایک فریق پر زیادتی پر مبنی ہوتی ہے، اس لئے یہ وہ صلح نہیں جس کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا لازم ہے کہ فریقین میں سے کسی کی کسی قرابت یا وطن یا دیگر اغراض و مقاصد کے حوالے سے رعایت نہ رکھی جائے جو عدل و انصاف سے انحراف کے موجب بنتے ہیں۔ ﴿ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللّٰـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴾ ” اور عدل کرو بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے“ جو لوگوں کے درمیان اپنے فیصلوں اور ان تمام ذمہ داریوں میں، جن پر ان کو متعین کیا جاتا ہے، انصاف سے کام لیتے ہیں حتیٰ کہ اس میں وہ عدل و انصاف بھی داخل ہے جو انسان اپنے اہل وعیال کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں کرتا ہے۔ ایک صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :” انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر فائز ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں میں، اپنے اہل و عیال میں اور منصبی ذمہ داریوں میں انصاف کرتے ہیں۔ “ [صحیح مسلم، الأمارۃ، باب فضیلة الأمیر العادل۔۔۔حدیث:1827]