يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو (١) ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ۔
یہ بھی ان آداب میں شامل ہے جن پر عقل مند لوگ عمل پیرا ہیں کہ جب ان کے پاس کوئی فاسق شخص خبر لے کر آئے تو وہ اس کی خبر کی تحقیق کرلیا کریں اور تحقیق کے بغیر اس پر عمل نہ کریں، کیونکہ اس میں بہت بڑے خطرے اور گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے، کیونکہ جب فاسق و فاجر شخص کی خبر کو صادق اور عادل شخص کی خبر کے طور پر لیا جائے، اور اس کے موجب اور تقاضے کے مطابق حکم لگایا جائے، تو اس خبر کے سبب سے ناحق جان و مال کا اتلاف ہوگا جو ندامت کا باعث ہوگا۔ فاسق و فاجر کی دی ہوئی خبر سننے کے بعد اس کی تحقیق و تیبین واجب ہے۔ اگر دلائل اور قرائن اس کی صداقت پر دلالت کرتے ہوں تو اس پر عمل کیا جائے اور اس کی تصدیق کی جائے اور اگر دلائل و قرائن اس کے کذب پر دلالت کریں تو اس کو جھوٹ سمجھا جائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے۔ اس آیت کریمہ میں دلیل ہے کہ صادق و عادل کی خبر مقبول، کاذب کی خبر مردود اور فاسق کی خبر میں توقف ہے۔ بنا بریں سلف نے خوارج کی بہت سی روایات کو قبول کیا ہے، جو صداقت میں معروف تھے، اگرچہ وہ فاسق تھے۔