يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (١)
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ ﴾ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہونے میں آپ کا ادب ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہونے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی آواز کو آپ سے بلند کرے نہ اونچی آواز میں آپ سے گفتگو کرے، بلکہ اپنے لہجے کو پست رکھے، آپ سے نہایت ادب و ملائمت، تعظیم و تکریم اور جلال و عظمت کے ساتھ بات کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے کسی فرد جیسے نہیں ہیں، اس لئے آپ سے مخاطب ہونے میں آپ کے امتیاز کا خاص خیال رکھیں۔ جیسا کہ آپ اپنی امت پر اپنے حقوق، آپ پر ایمان اور آپ کے ساتھ محبت کے واجب ہونے میں امتیاز رکھتے ہیں، جس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان آداب کا لحاط نہ رکھنے سے ڈر ہے کہ کہیں بندے کا عمل اکارت نہ جائے اور اسے شعور تک نہ ہو، جس طرح آپ کا ادب کرنا حصول ثواب اور قبولیت اعمال کا سبب ہے۔