يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والے لوگو! اللہ اور اس کے رسول کے آگے نہ بڑھو (١) اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔
یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب، نیز آپ کی تعظیم، احترام اور اکرام و تکریم کو متضمن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ان امور کا حکم دیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان کے متقاضی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب۔ نیزیہ کہ وہ اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کے اوامر کے مطابق چلیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی اتباع کریں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے نہ بڑھیں، اس وقت تک کوئی بات نہ کریں جب تک کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات نہ کرے، وہ کسی کام کا حکم نہ دیں جب تک کہ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم نہ دے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی حقیقی ادب ہے جو فرض ہے۔ یہی ادب بندے کی سعادت اور فلاح کا عنوان ہے، چنانچہ اس کے حصول میں ناکامی، سعادت ابدی اور نعیم سرمدی کے حصول میں ناکامی ہے۔ اس آیت کریمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول پر کسی اور کے قول کو مقدم رکھنے کی ممانعت ہے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ واضح ہو کر سامنے آجائے تو اس کی اتباع کرنا اور اس کو کسی اور قول اور رائے پر، خواہ وہ کوئی بھی ہو، مقدم رکھنا واجب ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقویٰ کا عمومی حکم دیا ہے۔ اور تقویٰ کا معنی طلق بن حبیب کے قول کے مطابق، یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ثواب کے عطا ہونے کی امید رکھتے ہوئے اس کے نور کی روشنی میں اس کی اطاعت کریں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کے نور کی روشنی میں اس کی معصیت کو ترک کردیں۔ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ سَمِيعٌ ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ تمام اوقات اور تمام مخفی مقامات وجہات میں تمام آوازوں کو سنتا ہے ﴿ عَلِيمٌ ﴾ بے شک اللہ تعالیٰ تمام ظواہر اور بواطن، گزرے ہوئے اور آنے والے امور، تمام واجبات مستحیلات اور ممکنات کا علم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی ممانعت اور تقویٰ کا حکم دینے کے بعد، ان دو اسمائے کریمہ کا ذکر کرنے میں، ان مذکورہ اوامر حسنہ اور آداب مستحسنہ کی تعمیل کی ترغیب اور ان کی عدم تعمیل کی صورت میں ترہیب ہے۔