سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا
جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے، (١) وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدل دیں (٢) آپ کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے (٣) وہ اس کا جواب دیں گے (نہیں نہیں) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو (٤) (اصل بات یہ ہے) کہ وہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں (٥)
جب اللہ تعالیٰ نے جہاد سے جی چرا کر پیچھے بیٹھ رہنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی مذمت کی، تو یہ بھی ذکر فرمایا کہ ان کی دنیاوی سزا یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام، ایسی غنیمتیں حاصل کرنے لئے آگے بڑھیں گے، جس میں جنگ نہیں ہوگی، تو یہ لوگ ان سے صحبت اور مشارکت کی درخواست کریں گے۔ وہ کہیں گے۔ ﴿ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ يُرِيدُونَ ﴾ ” ہمیں بھی اجازت دیں کہ ہم آپ کے ساتھ چلیں، وہ چاہتے ہیں“ اس سے ﴿أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللّٰـهِ ﴾ ” کہ وہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔“ کیونکہ اس نے ان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ان غنائم کو شرعاً اور قدر اً صحابہ کرام یعنی اہل ایمان سے مختص کیا ہے۔ ﴿قُل﴾ ان سے کہہ دیجئے ﴿لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللّٰـهُ مِن قَبْلُ﴾ ” تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے، اسی طرح اللہ نے پہلے فرما دیا ہے۔“ تمہیں اس جرم کی پاداش میں جس کا ارتکاب تم نے اپنے آپ پر کیا، غنائم سے محروم کیا جاتا ہے، نیز اس جرم کی پاداش میں کہ تم نے پہلے مرتبہ جہاد کو ترک کیا۔ ﴿فَسَيَقُولُونَ﴾ تو وہ اس بات کا جواب دیتے ہوئے، جس کی بنا پر انہیں جنگ کے لئے نکلنے سے منع کیا گیا ہے، کہیں گے : ﴿بَلْ تَحْسُدُونَنَا﴾ یعنی تم مال غنیمت کے بارے میں ہمارے ساتھ حسد کرتے ہو۔ اس مقام پر یہ ان کا منتہائے علم ہے، اگر انہوں نے رشدو فہم سے کام لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہوتا کہ ان کی محرومی کا سبب، ان کی نافرمانی ہے، گناہوں کی کچھ دنیاوی اور کچھ دینی سزا ہوتی ہے اسی لئے فرمایا : ﴿بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا﴾ ” بلکہ یہ بہت کم سمجھتے ہیں۔ “