سورة الفتح - آیت 12

بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

نہیں بلکہ تم نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ پیغمبر اور مسلمانوں کا اپنے گھروں کی طرف لوٹ آنا قطعًا ناممکن ہے اور یہی خیال تمہارے دلوں میں رچ گیا تھا اور تم نے برا گمان کر رکھا تھا (١) دراصل تم لوگ ہو بھی ہلاک ہونے والے۔ (٢)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پس اگر ان کے دلوں میں یہی بات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استغفار ان کے لئے فائدہ مند ہوتا کیونکہ انہوں نے توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا ہے مگر ان کے دلوں میں تو یہ مرض ہے کہ وہ جہاد چھوڑ کر اس لئے گھر بیٹھ رہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں برا گمان رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں: ﴿أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا﴾ ” کہ رسول اور مومن اپنے اہل و عیال میں کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔“ یعنی ان کو قتل کرکے نیست و نابود کردیا جائے گا اور یہ برا گمان ان کے دلوں میں پرورش پاتا رہا، وہ اس پر مطمئن رہے حتیٰ کہ ان کے دلوں میں یہ بدگمانی مستحکم ہوگئی، اور اس کا سبب دو امور ہیں : (1) وہ ﴿ قَوْمًا بُورًا﴾ ہلاک ہونے والے لوگ ہیں، ان میں کوئی بھلائی نہیں، اگر ان میں کسی قسم کی بھلائی ہوتی تو ان کے دلوں میں بدگمانی نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے، دین کے لئے اس کی نصرت اور کلمۃ اللہ کو بلند کرنے کے بارے میں ان کا ایمان اور یقین کمزور ہے۔