هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں (١) اور آسمانوں اور زمین کے (کل) لشکر اللہ ہی کے ہیں (٢) اور اللہ تعالیٰ دانا با حکمت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس احسان سے آگاہ فرمایا ہے کہ اس نے ان کے دلوں میں سکینت نازل کی۔ سکینت سے مراد وہ سکون، اطمینان اور ثبات ہے جو مضطرب کردینے والے مصائب و محن اور ایسے مشکل امور کے وقت بندۂ مومن کو حاصل ہوتا ہے، جو دلوں کو تشویش میں مبتلا کرتے ہیں، عقل کو سوچنے سمجھنے کی قوت سے عاری اور نفس کو کمزور کردیتے ہیں۔ پس اس صورت حال میں یہ اللہ کی طرف سے اپنے بندے کیلئے نعمت ہے کہ وہ اس کو ثابت قدم رکھتا ہے، اس کے قلب کو مضبوط کرتا ہے تاکہ وہ ان مصائب کا سامنا کرسکے اور اس حال میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو قائم کرنے کے لئے مستعد رہے، اس سے اس کے ایمان میں اضافہ اور اس کے ایقان کی تکمیل ہو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکوں کے مابین، صلح کی یہ شرائط طے ہوئیں، جو صحابہ کرام کے لئے بظاہر ذلت آمیز اور ان کے مرتبے سے فروتر تھیں، تو ان شرائط پر ان کے نفوس صبر کرنے کی قوت نہیں پار ہے تھے۔ جب انہوں نے ان شرائط کو صبر کے ساتھ قبول کرلیا اور اپنے نفوس کو ان کی قبولیت پر آمادہ کرلیا تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوا۔ فرمایا : ﴿وَلِلَّـهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ یعنی زمین و آسمان کے تمام لشکر اس کی ملکیت اور اس کے دست تدبیر اور قہر کے تحت ہیں، اس لئے مشرکین یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین اور نبی کی مدد نہیں کرے گا، مگر اللہ تعالیٰ علم اور حکمت والا ہے، بنا بریں اس کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ لوگوں کے درمیان گردشِ ایام ہوتی رہے اور اہل ایمان کیلئے فتح و نصرت کسی دوسرے موقع تک مؤخر رہے۔