سورة الأحقاف - آیت 34

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَلَيْسَ هَٰذَا بِالْحَقِّ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا جس دن جہنم کے سامنے لائے جائیں گے (اور ان سے کہا جائے گا کہ) کیا یہ حق نہیں ہے؟ تو جواب دیں گے کہ ہاں قسم ہے (١) ہمارے رب کی (حق ہے) (اللہ) فرمائے گا اب اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو (٢)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جہنم کے سامنے پیش کیے جانے پر، جس کو وہ جھٹلایا کرتے تھے، کفار کی جو حالت ہوگئی اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز یہ کہ ان کو زجرو توبیخ کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا : ﴿ أَلَيْسَ هَـٰذَا بِالْحَقِّ ﴾ ” کیا یہ حق نہیں ہے؟“ جبکہ تم اس جہنم میں پہنچ چکے ہو اور اس کا واضح مشاہدہ بھی کرچکے ہو ﴿ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ﴾ ” تو وہ کہیں گے : کیوں نہیں ہمارے رب !“ پس وہ اپنے گناہ کا اعتراف کریں گے اور ان کا جھوٹ واضح ہوجائے گا۔ ﴿ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ ﴾ ” اللہ فرمائے گا : اب اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو“ یعنی ہمیشہ چمٹے رہنے والے عذاب کا مزا چکھو، جس طرح کفر تمہاری دائمی اور لازمی صفت تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ آپ کو جھٹلانے والوں اور آپ سے عداوت رکھنے والوں کی ایذارسانی پر صبر کریں اور ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہیں نیز یہ کہ وہ اولوالعزم انبیاء و رسل کی پیروی کریں جو تمام مخلوق کے سردار، عزائم کے مالک اور بلند ہمت تھے، جن کا صبر بہت عظیم اور جن کا یقین کامل تھا۔ پس تمام مخلوق میں وہی سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کو نمونہ بنایا جائے ان کے آثار کی پیروی کی جائے اور ان کی روشنی سے راہنمائی حاصل کی جائے۔ چنانچہ رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایسا صبر کیا کہ آپ سے پہلے کسی نبی نے ایسا صبر نہیں کیا۔ آپ کے تمام دشمنوں نے آپ پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ دیے، ان سب نے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کا راستہ روکا، محاربت اور عداوت میں ان سے جو کچھ ممکن تھا انہوں نے کہا۔۔۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے احکام کو بیان کرتے رہے، اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتے رہے اور جو اذیتیں آپ کو پہنچتیں ان پر صبر کرتے رہے۔۔۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو زمین پر اقتدار سے سرفراز فرمایا، اس نے آپ کے دین کو تمام ادیان پر اور آپ کی امت کو تمام امتوں پر غالب کردیا۔۔۔ صَلَّی اللہُ عَلیَهِ وَسَلَّمَ تَسْلِیْماً۔