سورة الأحقاف - آیت 24

فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر جب انہوں نے عذاب کو بصورت بادل دیکھا اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے کہنے لگے، یہ بادل ہم پر برسنے والا ہے (١) (نہیں) بلکہ دراصل یہ ابر وہ (عذاب) ہے جس کی تم جلدی کر رہے تھے (٢) ہوا ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔ (٣)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ فَلَمَّا رَأَوْهُ ﴾ جب انہوں نے اس عذاب کو دیکھا جو ﴿ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ ﴾ بادل کی طرح پھیلتے ہوئے ان کی وادیوں کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں سیلاب کا پانی بہتا تھا، جہاں سے وہ اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے تھے اور ان وادیوں کے کنوؤں اور تالابوں سے پانی پیتے تھے۔ ﴿ قَالُوا ﴾ (تو) انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا : ﴿ هَـٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ﴾ یہ بادل ہے جو ہم پر برسے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُم بِهِ ﴾ بلکہ یہ وہ عذاب ہے جسے تم نے خود اپنے لئے چنا ہے کہ تم نے کہا تھا : ﴿ فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴾ ” ہمارے پاس وہ عذاب لے آ جس کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے، اگر تو سچا ہے۔“ ﴿ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ ﴾ ” یہ ایک ایسی ہوا ہے جس کے اندر درد ناک عذاب ہے جو ہر چیز کو ہلاک کردے گی۔“ یعنی یہ ہوا جس چیز پر سے گزرتی اپنی شدت اور نحوست کی وجہ سے اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دیتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے ان پر مسلط رکھا ﴿ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ﴾(الحاقۃ: 69؍7) ” لگا تار سات راتیں اور آٹھ دن (آپ وہاں ہوتے) تو اس ہوا میں لوگوں کو پچھاڑے اور مرے ہوئے دیکھتے جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوتے ہیں“