سورة الأحقاف - آیت 2

تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اس کتاب کا اتارنا اللہ تعالیٰ غالب حکمت والے کی طرف سے ہے۔ (١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی کتاب عزیز کی ثنا اور تعظیم ہے اور اس ضمن میں بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ اس کتاب کی روشنی سے راہ نمائی حاصل کریں، اس کی آیات میں تدبر کریں اور اس کے خزانوں کا استخراج کریں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو نازل کرنے کے بارے میں فرمایا، جو امرو نہی کو متضمن ہے، تو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا بھی ذکر فرمایا، اس نے خلق و امر کو جمع کردیا۔ ﴿ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ﴾ )اعراف :7؍54) یاد رکھو ! اسی نے تخلیق کیا ہے تو حکم بھی اسی کا ہے۔“ جیسا کہ فرمایا : ﴿ اللّٰـهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ ﴾ (الطلاق : 65؍12) ” اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی کے مثل زمینیں بھی، اس کا حکم ان کے درمیان اترتا رہتا ہے۔“ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ﴾ (النحل : 16؍2،3) ” اللہ ہی فرشتوں کو اپنی وحی دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو( اس بات سے) آگاہ کردو کہ بلاشبہ میرے سو اور کوئی معبود نہیں، لہٰذا تم مجھ سے ڈرو۔ اسی نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔“ تو اللہ تعالیٰ ہی نے مکلفین کو پیدا کیا، ان کے مساکن بنائے، ان کے لئے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو مسخر کردیا، پھر ان کی طرف رسول بھیجے، ان پر اپنی کتابیں نازل کیں، انہیں نیکی کا حکم دیا اور بدی سے روکا، انہیں خبردار کیا کہ یہ دنیا عمل کا گھر اور اہل عمل کیلئے گزرگاہ ہے، یہ دنیا اقامت کی جگہ نہیں کہ اس کے رہنے والے یہاں سے کوچ نہیں کریں گے، وہ عنقریب یہاں سے جائے قرار اور ہمیشہ رہنے والے دائمی ٹھکانے اور اقامت گاہ میں منتقل ہوں گے۔ وہ اس گھر میں اپنے اعمال کی، جو وہ دنیا کرتے رہے ہیں، کامل اور وافر جزا پائیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس گھر کے اثبات کے لئے دلائل قائم کئے اور نمونے کے طور پر اسی دنیا میں بندوں کو ثواب و عقاب کا مزا چکھایا تاکہ امر محبوب کی طلب اور جس امر سے ڈرایا گیا ہے اس سے دور بھاگنے کا داعیہ زیادہ شدت سے پیدا ہو۔