سورة آل عمران - آیت 156

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کفر کیا اپنے بھائیوں کے حق میں جب کہ وہ سفر میں ہوں یا جہاد میں کہا اگر ہمارے پاس ہوتے نہ مرتے اور نہ مارے جاتے (١) اس کی وجہ یہ تھی کہ اس خیال کو اللہ تعالیٰ ان کی دلی حسرت کا سبب بنا دے (٢) اللہ تعالیٰ جلاتا اور مارتا ہے اور اللہ تمہارے عمل کو دیکھ رہا ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے اہل ایمان بندوں کو کفار اور منافقین وغیرہ کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا ہے جو اپنے رب اور اس کی قضا و قدر پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس نے ہر چیز میں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا ہے جو اپنے رب اور اس کی قضا و قدر پر ایمان نہیں رکھتے۔ خاص طور پر اس معاملے میں کہ وہ اپنے دینی یا نسبی بھائیوں سے کہتے ہیں : ﴿ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ﴾ یعنی جب تجارت وغیرہ کے لیے سفر کرتے ہیں ﴿ أَوْ كَانُوا غُزًّى﴾ یا وہ غزوات کے لیے نکلتے ہیں۔ پھر اس دوران میں انہیں موت آجاتی ہے یا وہ قتل ہوجاتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں ﴿لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا﴾ ” اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو وہ نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے“ یہ ان کا جھوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ﴾ (آل عمران :3؍ 154) ” کہہ دو اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی تقدیر میں قتل ہونا لکھا تھا توہ وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے۔“ مگر اس تکذیب نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا البتہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول اور عقیدے کو ان کے دلوں میں حسرت بنا دیا پس ان کی مصیبت میں اور اضافہ ہوگیا۔ رہے اہل ایمان، تو وہ جانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے پس وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اسے تسلیم کرتے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو ہدایت دیتا ہے اور ان کو مضبوط کردیتا ہے اور اس طرح ان کی مصیبت میں تخفیف کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ منافقین کی تردید کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿وَاللَّـهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ﴾ یعنی زندہ کرنے اور موت دینے کا اختیار وہ اکیلا ہی رکھتا ہے۔ اس لیے صرف احتیاط تقدیر سے نہیں بچا سکتی۔ ﴿ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴾ ” اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس کو دیکھ رہا ہے۔“ اس لیے وہ تمہارے اعمال اور تمہاری تکذیب کا بدلہ ضرور دے گا۔