إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا ۚ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ
ہم عذاب کو تھوڑا دور کردیں گے تو تم پھر اپنی سی حالت پر آجاؤ گے۔
تب اس تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ﴾ ” ہم تھوڑے دنوں کے لئے عذاب ٹال دیتے ہیں مگر تم پھر (کفر کی طرف) لوٹ آتے ہو۔“ میں اس بات کی خبر کہ اللہ تعالیٰ عنقریب تم سے اس عذاب کو ہٹا دے گا اور یہ ان کے تکبر اور تکذیب کے رویہ کو دوبارہ اختیار کرنے پر سخت وعید ہے، نیز اس عذاب کے وقوع کی پیش گوئی ہے۔ پس یہ عذاب واقع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ عنقریب انہیں ایک زبردست عذاب کی گرفت میں لے گا اور (بعض) اہل علم کا خیال ہے کہ اس سے مراد جنگ بدر ہے۔ یہ قول بظاہر محل نظر ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ آخری زمانے میں ایک دھواں لوگوں کو اپنی گرفت میں لے لے گا اور وہ سانس نہیں لے سکیں گے مگر اہل ایمان کو دھواں بس عام دھوئیں کی طرح تکلیف دے گا۔ پہلا قول صحیح تفسیر ہے۔ آیات کریمہ ﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَـٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ رَّبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ أَنَّىٰ لَهُمُ الذِّكْرَىٰ وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌ ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَّجْنُونٌ﴾ ” میں اس امر کا بھی احتمال موجود ہے کہ یہ سب کچھ قیامت کے روز واقع ہوگا۔ اور رہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ﴿ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا ۚ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَىٰ إِنَّا مُنتَقِمُونَ ﴾ ” تو یہ ان واقعات کی طرف اشارہ ہے جو قریش کو پیش آئے۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ جب ان آیات کریمہ کو ان دونوں معنی معنی پر محمول کیا جائے تو آپ آیات کے الفاظ میں کوئی ایسی چیز نہیں پائیں گے جو اس سے مانع ہو بلکہ آپ ان کے الفاظ کو ان معانی کے پوری طرح مطابق پائیں گے، میرے نزدیک یہی معنی ظاہر اور راجح ہے۔ وَاللہ اَعْلَمُ