وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ
(حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف رسول ہی ہیں (١) اس سے پہلے بہت سے رسول ہوچکے کیا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا شہید ہوجائیں تو اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو کوئی پھرجائے اپنی ایڑیوں پر تو اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا (٢)۔
﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ﴾ یعنی وہ رسولوں میں سے کوئی انوکھا رسول نہیں ہیں بلکہ وہ ان رسولوں کی جنس سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کی ذمہ داری اپنے رب کا پیغام پہنچانا اور اس کے احکام کا نفاذ تھا۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ تھے اور نہ ان کی بقاء اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کے لیے کوئی شرط تھی۔ بلکہ تمام امتوں پر یہ چیز فرض تھی کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ﴾ ” کیا پس اگر ان کو موت آگئی یا قتل کردیئے گئے، تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟“ یعنی یہ نبی ایمان اور جہاد وغیرہ کے جو احکام لے کر مبعوث ہوئے ہیں کیا تم ان کو ترک کر کے الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ فرمایا :﴿وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ﴾ ” اور جو شخص الٹے پاؤں پھرجائے گا تو ہرگز نہ بگاڑے گا اللہ کا کچھ“ وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے دین کو ضرو رقائم کرے گا اور اپنے مومن بندوں کو غلبہ عطا کرے گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے الٹے پاؤں پلٹ جانے والوں کو زجر و توبیخ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح و ثناء بھی کی جو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدمی سے ڈٹے رہے اور انہوں نے اپنے رب کے حکم کی اطاعت کی۔ فرمایا :﴿وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ ﴾ ” اور اللہ شکر گزار بندوں کو جزا دے گا“ اور شکر کے تقاضے اس کے بغیر ادا نہیں ہوتے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی عبودیت اختیار کی جائے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی راہنمائی فرمائی ہے کہ ان کے سربراہ کا مفقود ہونا خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو کسی بھی حالت میں ان کو ان کے ایمان یا کسی لازمہ ایمان سے نہ ہٹا دے مگر یہ تب ہی ممکن ہے کہ امور دین کے ہر شعبہ میں کچھ لوگوں کو تیار کیا جائے جو اس شعبہ میں برابر ہوں۔ ان میں سے ایک کی عدم موجودگی میں دوسرا اس کی جگہ لے لے۔ نیز اہل ایمان کا عمومی مقصد اقامت دین اور اس کے دفاع میں اپنی استطاعت کے مطابق جہاد ہونا چاہئے۔ ان کا مقصد ایک سربراہ کی جگہ دوسرے سربراہ کو لانا نہیں ہونا چاہئے۔ اسی صورت میں ان کا معاملہ درست طریقے سے جاری رہ سکتا ہے اور دیگر تمام امور صحیح نہج پر چل سکتے ہیں۔