سورة الشورى - آیت 47

اسْتَجِيبُوا لِرَبِّكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ ۚ مَا لَكُم مِّن مَّلْجَإٍ يَوْمَئِذٍ وَمَا لَكُم مِّن نَّكِيرٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اپنے رب کا حکم مان لو اس سے پہلے کہ اللہ کی جانب سے وہ دن آجائے جس کا ہٹ جانا ناممکن ہے (١)، تمہیں اس روز نہ تو کوئی پناہ کی جگہ ملے گی نہ چھپ کر انجان بن جانے کی (٢)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس کی دعوت پر لبیک کہیں، وہ جس چیز کا حکم دے اس کی تعمیل کریں اور جس چیز سے روکے اس سے اجتناب کریں اس کو ٹالنے کی بجائے اس پر جلدی سے عمل کریں قیامت کے دن کے آنے سے پہلے کہ جب وہ آئے گا تو اس کو روکا جا سکے گا نہ کسی رہ جانے والی چیز کا تدارک ہوسکے گا۔ اس دن بندے کے پاس کوئی پناہ گاہ نہ ہوگی جہاں وہ پناہ لے کر اپنے رب سے بچ سکے اور اس سے بھاگ سکے بلکہ فرشتے تمام خلائق کو پیچھے سے گھیرے ہوئے ہوں گے اور انہیں پکار کر کہا جائے گا : ﴿يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ ﴾(الرحمٰن :55؍33) ” اے جن و انس کے گروہ ! اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جانے کی طاقت رکھتے ہو تو پھر نکل جاؤ، تم نکل نہیں سکتے مگر طاقت کے ساتھ۔“ اس روز بندہ اپنے کئے ہوئے جرائم کا انکار نہیں کرسکے گا بلکہ اگر وہ انکار کرے گا تو اس کے اعضا اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اس آیت اور اس نوع کی دیگر آیات کریمہ میں جھوٹی امیدوں کی مذمت کی گئی ہے اور ہر وہ عمل جو بندے کو پیش آسکتا ہے، فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ تاخیر میں بہت سی آفتیں ہیں۔