اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی لطف کرنے والا ہے، جسے چاہتا ہے کشادہ روزی دیتا ہے اور وہ بڑی طاقت، بڑے غلبے والا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے لطف و کرم سے آگاہ فرماتا ہے تاکہ وہ اسے پہچانیں، اس سے محبت کریں اور اس کے فضل و کرم کے حصول کے در پے رہیں۔ لطف اللہ تعالیٰ کے اوصاف میں سے ایک وصف ہے جس سے مراد وہ ہستی ہے جو دل کی باتوں اور چھپے ہوئے بھیدوں کو بھی جانتی ہے جو اپنے بندوں کو، خاص طور پر اہل ایمان کو، اس مقام تک پہنچاتی ہے جس کے بارے میں انہیں کوئی علم ہوتا ہے نہ گمان۔ یہ بندہ مومن پر اس کا لطف و کرم ہے کہ اس نے بھلائی کے اسباب مہیا کر کے اسے بھلائی کی راہ دکھائی، جس کا اس کے دل میں خیال تک نہیں آتا، اس کی فطرت میں موجود یہ اسباب محبت حق اور اس کی اطاعت کی طرف بلاتے ہیں، نیز یہ کہ اس نے اپنے مکرم فرشتوں کو الہام کیا کہ وہ اس کے مومن بندوں کو ثابت قدم رکھیں، انہیں بھلائی کی ترغیب دیں، ان کے دلوں میں حق کو مزین کریں تاکہ یہ تزیین حق اتباع حق کی دعوت دے۔ یہ اس کا لطف و کرم ہے کہ اس نے اہل ایمان کو اجتماعی عبادات کا حکم دیا جن کے ذریعے سے ان کے عزائم میں قوت آتی ہے، ان کی ہمتیں بیدار ہوتی ہیں، بھلائی میں رغبت پیدا ہوتی ہے، بھلائی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور ایک دوسرے کی پیروی کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے اپنے بندے کو ہر سبب مہیا کیا جو اسے معاصی سے باز رکھتا ہے اور اس کے اور معاصی کے درمیان حائل ہوجاتا ہے حتیٰ کہ اگر اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ دنیا، مال و متاع اور ریاست وغیرہ جس کی خاطر دنیا دار ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے بندے کو اس کی اطاعت سے دور کردیں گی یا اس میں غفلت پیدا کردیں گی یا اسے معصیت پر ابھاریں گی تو وہ اس دنیا کو اس سے دور ہٹا دیتا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ ﴾ اپنی حکمت کے تقاضے اور اپنے لطف و کرم کے مطابق جسے چاہتا ہے رزق سے بہرہ مند کرتا ہے ﴿ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ ﴾ ” اور وہ بہت قوت والا، نہایت غالب ہے۔“ وہ تمام قوت کا مالک ہے اس کی مدد کے بغیر مخلوق میں کسی کے پاس کوئی قوت و اختیار نہیں اسی کے سامنے کائنات سرنگوں ہے۔