يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ ۗ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ
اس کی جلدی انہیں پڑی ہے جو اسے نہیں مانتے (١) اور جو اس پر یقین رکھتے ہیں وہ تو اس سے ڈر رہے ہیں انہیں اس کے حق ہونے کا پورا علم ہے یاد رکھو جو لوگ قیامت کے معاملہ میں لڑ جھگڑ رہے ہیں وہ دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں (٢)
﴿ يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا ﴾’’اس کی جلدی انہیں پڑی ہے جو اسے نہیں مانتے۔“ یعنی منکرین حق عناد اور تکذیب کے طور پر اور اپنے رب کو قیامت قائم کرنے سے عاجز سمجھتے ہوئے قیامت کے لئے جلدی مچاتے ہیں۔ ﴿ وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا ﴾ ” اور اہل ایمان اس سے ڈرتے ہیں۔“ یعنی ان کے ڈرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ قیامت کے روز اعمال کی جزا و سزا دی جائے گی اور وہ اپنے رب کی معرفت کی بنا پر ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے اعمال نجات کے حصول میں مدد نہ کرسکیں، بنا بریں فرمایا : ﴿ وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ ﴾ ” اور وہ جانتے ہیں کہ بلاشبہ یہ حق ہے۔“ جس میں کوئی جھگڑا ہے نہ شک۔ ﴿ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ ﴾ ” آگاہ رہو۔ ! بلاشبہ جو لوگ قیامت کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔“ یعنی قیامت میں شک کرنے کے علاوہ، قیامت کے بارے میں انبیاء اور ان کے پیروکاروں سے جھگڑا کرتے ہیں، پس وہ دور کی مخالفت میں ہیں، یعنی صواب و درستی کے قریب نہیں ہیں بلکہ حق سے انتہائی دور معاندانہ اور مخاصمانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اس شخص سے بڑھ کر حق سے کون دور ہوسکتا ہے جس نے آخرت کے گھر کو جھٹلایا جو حقیقی گھر ہے جو دائمی طور پر باقی رہنے اور خلود سرمدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ دارلجزا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و عدل کو ظاہر کرے گا۔ دنیا کے گھر کی اس دائمی گھر سے بس اتنی سی نسبت ہے جیسے کوئی مسافر درخت کے سائے تلے آرام کرے پھر اس سایہ دار درخت کو چھوڑ کر کوچ کر جائے، یہ تو عبوری گھر اور گزر گاہ ہے ہمیشہ رہنے کا ٹھکانہ نہیں۔ چونکہ انہوں نے اس دار فانی کو دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا ہے اس لئے انہوں نے اس کی تصدیق کی اور آخرت کے گھر کو جھٹلایا جس کے بارے میں کتب الٰہیہ میں تواتر کے ساتھ اخبار وارد ہوئی ہیں اور انبیائے کرام اور ان کے پیروکاروں نے آگاہ کیا جو عقل میں سب سے زیادہ کامل، علم میں سب زیادہ وسعت کے حامل اور سب سے زیادہ فہم و فطانت رکھنے والے نفوس قدسیہ ہیں۔