شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ (١) ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلا رہے ہیں وہ تو (ان) مشرکین پر گراں گزرتی ہے (٢) اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا (٣) ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرے وہ اس کی صحیح راہنمائی کرتا ہے (٤)۔
یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اس نے اپنے بندوں کو سرفراز فرمایا۔ اس نے ان کے لئے دین اسلام پسند کیا جو تمام ادیان میں سب سے افضل اور سب سے پاک دین ہے۔ دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے چنے ہوئے بندوں کے لئے مشروع کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے چنے ہوئے بندوں میں سے بھی خاص بندوں کے لئے اس دین کو مشروع کیا اور وہ اولوالعزم انبیاء و مرسلین ہیں جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا جو ہر لحاظ سے تمام مخلوق میں سب سے کامل اور جن کا درجہ سب سے بلند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین ان کے لئے مشروع فرمایا، ضروری ہے کہ وہ مقدس ہستیوں کے مناسب حال اور ان کے کمال کے موافق ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے دین کو قائم کرنے کے سبب سے کمال سے سرفراز فرمایا اور اپنے لئے چن لیا۔ اگر دین اسلام نہ ہوتا تو تمام مخلوق میں کوئی بھی بلندی پر نہ پہنچ سکتا۔ اسلام سعادت کی روح اور کمال کی بنیاد ہے۔ اسلام وہی ہے جو اس کتاب کریم میں دیا گیا ہے اور جس کی طرف یہ کتاب دعوت دیتی ہے، یعنی توحید، اعمال صالحہ، مکارم اخلاق اور آداب وغیرہ۔ ﴿ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ ﴾ یعنی اس نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم دین کے تمام اصول و فروع کو قائم کرو۔ ان کو خود اپنی ذات پر نافذ کرو، پھر دوسروں پر نافذ کرنے کے لئے جدوجہد کرو۔ نیکی اور تقویٰ پر تعاون کرو، گناہ اور زیادتی پر تعاون نہ کرو۔ ﴿ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ﴾ ” اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔“ تاکہ تم دین کے اصول و فروغ پر متفق رہو، اس امر پر پوری توجہ رکھو کہ کہیں مسائل تم میں تفرقہ ڈال کر تمہیں گروہ درگروہ تقسیم نہ کردیں اور یوں تم ایک دوسرے کے دشمن بن جاؤ باوجود یکہ تمہارا دین ایک ہے۔ دین پر اجتماع اور عدم تفرقہ میں وہ اجتماعات عامہ بھی شامل ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، مثلاً حج، عیدین، جمعہ، نماز پنجگانہ اور جہاد وغیرہ یہ ایسی عبادات ہیں جو اجتماع اور عدم تفرق کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں۔ ﴿ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ﴾ یعنی جب آپ ان کو اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کی دعوت دیتے ہیں تو یہ بات ان پر بے انتہا شاق گزرتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَإِذَا ذُكِرَ اللّٰـهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ﴾(الزمر:39؍45) ” اور جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل کڑھنے لگتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جب اللہ کے سوا دوسروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو کیا خوش ہوجاتے ہیں۔“ جیسا کہ مشرکین کہتے تھے: ﴿ أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ﴾(ص:38؍5) ” کیا اس نے ان سارے معبودوں کی بجائے ایک ہی معبود بنا دیا، یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے۔“ ﴿ اللّٰـهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ ﴾ ” اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ میں برگزیدہ بنا لیتا ہے۔“ اللہ اپنی مخلوق میں ان لوگوں کو اپنے لئے منتخب کرتا ہے جن کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ وہ اس کی رسالت، اس کی ولایت اور اس کی نعمت کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔ اس طرح اس نے اس امت کا انتخاب کیا اور اسے تمام امتوں پر فضیلت سے نوازا اور اس کے لئے بہترین دین چنا۔ ﴿ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ ﴾ ” اور جو اس کی طرف رجوع کرے وہ اسے اپنی طرف راستہ دکھاتا ہے۔“ بندے کی طرف سے یہ ایسا سبب ہے جس کے ذریعے سے وہ ہدایت الٰہی کی منزل تک پہنچتا ہے، اپنے رب کی طرف انابت، دلی محرکات کا اس کی طرف کھینچنا اور اپنے رب کی رضا کو اپنا مقصد بنانا یہ تمام اسباب طلب ہدایت کے حصول کو آسان بناتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَهْدِي بِهِ اللّٰـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ ﴾(المائدۃ:5؍16) ” اس کتاب کے ذریعے سے اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی رضا چاہتے ہیں۔ “ اس آیت کریمہ میں فرمایا : ﴿ يَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ ﴾ اور فرمایا : ﴿ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ﴾ (لقمٰن :31؍5) اور چلو اس شخص کے طریق پر جو ہماری طرف رجوع کئے ہوئے ہو۔“ اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں صحابہ کرام کے حالات معلوم ہیں اور ان کی شدت انابت بھی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا قول اور خاص طور پر خلفائے راشدین کا قول حجت ہے۔ رَضِی َ اللّٰہُ عَنْھُمْ أَجْمَعِیْنَ