وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ
اور جو مصیبت اسے پہنچ چکی ہے اس کے بعد اگر ہم اسے کسی رحمت کا مزہ چکھائیں تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ اس کا تو میں حقدار (١) ہی تھا میں تو خیال نہیں کرسکتا کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر میں اپنے رب کے پاس واپس گیا تو بھی یقیناً میرے لئے اس کے پاس بھی بہتری (٢) ہے، یقیناً ہم ان کفار کو ان کے اعمال سے خبردار کریں گے اور انہیں سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ ﴾ ” اور اگر ہم اسے چکھاتے ہیں۔“ یعنی وہ شخص جو بھلائی کی دعا سے اکتاتا نہیں اور اگر سے کوئی تکلیف پہنچے تو مایوس ہوجاتا ہے۔ ﴿ رَحْمَةً مِّنَّا ﴾ ” اپنی طرف سے رحمت“ یعنی اس برائی کے بعد جو اسے پہنچی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اسے مرض سے شفا دیتا ہے یا اس کا فقر دور کر کے غنی بنا دیتا ہے۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ وہ بغاوت اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے اور کہتا ہے : ﴿ هَـٰذَا لِي ﴾ یعنی یہ مجھے عطا ہوا ہے کیونکہ میں اس کا اہل اور مستحق ہوں۔ ﴿ وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً ﴾ ” اور میں نہیں خیال کرتا کہ قیامت برپا ہوگی۔“ یہ اس کی طرف سے انکار قیامت ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت اور رحمت کی ناسپاسی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی۔ ﴿ وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَ ﴾ فرض کیا اگر قیامت کی گھڑی آ ہی جائے اور مجھے اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے تو میرے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی بھلائی ہے۔ جس طرح دنیا میں مجھے نعمتوں سے نوازا گیا ہے اسی طرح آخرت میں بھی مجھے نعمتوں سے بہرہ مند کیا جائے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں سب سے بڑی جسارت اور بلاعلم قول ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : ﴿فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ ﴾ ” پس کافر جو عمل کرتے ہیں وہ ہم انہیں ضرور بتائیں گے اور انہیں سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔‘‘