وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
اور یہ بات انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں (١) اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا (٢)
﴿وَمَا يُلَقَّاهَا﴾ اور نہیں نصیب ہوتی یہ (صفت) “ یعنی اس خصلت حمیدہ کی توفیق نہیں دی جاتی ہے۔﴿ إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا﴾” مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں“ جو اپنے نفس کو ان امور کا پابند بناتے ہیں جنھیں ان کے نفس ناپسند کرتے ہیں اور انھیں ایسے امور پر عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ نفس انسانی کی جبلت ہے کہ وہ برائی کا مقابلہ برائی اور عدم عفو سے کرتا ہے تب وہ احسان کیوں کرسکتا ہے؟ جب انسان اپنے نفس کو صبر کا پابند بنا لیتا ہے اور اپنے رب کی اطاعت کرتا ہے اور اس کے بے پایاں ثواب کو جانتا ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ براسلوک کرنے والے کے ساتھ اسی جیسا سلوک کرنا اسے کچھ فائدہ نہیں دے گا اور عداوت صرف شدت ہی میں اضافے کا باعث ہوگی اور یہ بھی علم ہے کہ براسلوک کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اس کی قدرومنزلت کم نہیں ہوگی بلکہ جو اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے رفعت عطا کرتا ہے تب معاملہ اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے اور وہ اس فعل کو سر انجام دیتے ہوئے لذت محسوس کرتا ہے۔ ﴿وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾” اور یہ مقام انہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو بڑے صاحب نصیب ہیں۔“ یہ خاص لوگوں کی خصلت ہے جس کے ذریعے سے بندے کو دنیا وہ آخرت میں رفعت عطا ہوتی ہے اور یہ مکارم اخلاق میں سب سے بڑی خصلت ہے۔