وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ
اور کافروں نے کہا اس قرآن کی سنو ہی مت (١) (اس کے پڑھے جانے کے وقت) اور بے ہودہ گوئی کرو (٢) کیا عجب کہ تم غالب آجاؤ (٣)
اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کے بارے میں کفار کی روگردانی اور اس روگردانی کے ضمن میں ان کی ایک دوسرے کو وصیت سے آگاہ فرماتا ہے : ﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْآنِ﴾ ” اور کافر (ایک دوسرے سے) کہتے ہیں : اس قرآن کو نہ سنو“ یعنی اس قرآن کو سننے سے گریز کرو، اس کی طرف کوئی التفات کرو نہ اس کے لانے والے کی بات کی طرف کوئی توجہ دو۔ اگر تمہیں اس کے سننے کا کبھی اتفاق ہو یا اس کے احکام سننے کی دعوت دی جائے تو اس کی مخالفت کرو۔ ﴿وَالْغَوْا فِيهِ ﴾ ”(جب پڑھا جائے تو) خوب شو مچاؤ“ یعنی ایسی باتیں کرو جن کا کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ الٹا نقصان ہو۔ جہاں تک تمہارے بس میں ہو کسی کو اپنے ساتھ، قرآن کی بات کرنے اور اس کے الفاظ یا اس کے معانی کی تلاوت کی اجازت نہ دو۔ اس قرآن مجید سے اعراض کے بارے میں یہ ان کی زبان حال اور زبان مقال ہے۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ ﴾ ” تاکہ تم“ اگر تم نے یہ سب کچھ کیا ﴿تَغْلِبُونَ﴾ ” تم غالب رہو“ یہ دشمنوں کی طرف سے گواہی ہے اور واضح ترین حق وہ ہوتا ہے جس کی گواہی خود دشمن دیں کیونکہ انہوں نے اس شخص پر، جو حق لے کر آیا، اپنے غلبے کا حکم صرف اعراض اور روگردانی کے حال میں ایک دوسرے کو روگردانی کی وصیت کی صورت میں لگایا۔ ان کے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ اس کی تلاوت میں خلل نہ ڈالیں اور اسے غور سے سنیں تو وہ کبھی غالب نہیں آسکتے کیونکہ حق ہمیشہ غالب رہتا ہے کبھی مغلوب نہیں ہوسکتا۔ اس حقیقت کو اصحاب حق اور اعدائے حق سب جانتے ہیں۔ چونکہ یہ سب کچھ ان کے ظلم اور عناد کے باعث تھا، اس لئے ان کی ہدایت کی توقع باقی نہیں رہی اب ان کے لئے عذاب اور سزا باقی رہ گئی تھی۔