فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنصَرُونَ
بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز تند آندھی (١) منحوس دنوں میں (٢) بھیج دی کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزہ چکھا دیں، اور (یقین مانو) کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیادہ رسوائی والا اور وہ مدد نہیں کئے جائیں گے۔
﴿فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا ﴾ یعنی ہم نے ان پر انتہائی سخت طوفانی آندھی بھیجی جس میں بجلی کی کڑک کی مانند سخت ہولناک آواز تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس طوفانی ہوا کو ان پر ﴿سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ﴾ (الحاقہ : 69؍7) ” لگاتارسات رات اور آٹھ دن تک چلائے رکھا، اس ہوا میں تو ان لوگوں کو اس طرح پچھاڑے ہوئے دیکھتا گویا وہ کھجوروں کے خالی تنے ہیں۔‘‘ ﴿نَّحِسَاتٍ﴾ یعنی یہ دن ان کے لئے منحوس تھے۔ اس ہوا نے ان کو ہلاک کرکے تباہ و برباد کردیا اور ان کی یہ حالت ہوگئی کہ ان کے اجڑے ہوئے گھروں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ﴿لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ﴾ ” تاکہ ہم انہیں دنیا کی زندگی ہی میں رسوائی کا عذاب چکھائیں۔‘‘ اس عذاب کی وجہ سے انہوں نے مخلوق میں فضیحت اور رسوائی کا سامنا کیا۔ ﴿وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ وَهُمْ لَا يُنصَرُونَ﴾ ” اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی ذلیل کرنے والا ہے اور ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔‘‘ کوئی ان سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو روک سکے گا نہ وہ اپنے آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں گے۔