ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ
پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں (سا) تھا پس اسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے (١) دونوں نے عرض کیا بخوشی حاضر ہیں۔
﴿ثُمَّ﴾ یعنی زمین کی تخلیق کے بعد ﴿اسْتَوَىٰ ﴾ قصد کیا ﴿ إِلَى السَّمَاءِ﴾ آسمان کی تخلیق کا ﴿وَهِيَ دُخَانٌ﴾ ” اور وہ دھواں تھا“ جو پانی کی سطح پر اٹھ رہا تھا۔ ﴿فَقَالَ لَهَا﴾ ” پس آسمان سے کہا“ چونکہ اس میں اختصاص کا وہم تھا اس لئے اس پر اپنے اس فرمان کا عطف ڈالا : ﴿وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا﴾ ” اور زمین سے کہ دونوں آؤ! خوشی سے یا ناخوشی سے۔“ یعنی میرے حکم کی طوعاً یا کرہاً تعمیل کرو یہ نافذ ہو کر رہے گا۔ ﴿قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ﴾’’دونوں نے کہا ہم خوشی سے آتے ہیں۔“ ہمارا ارادہ تیرے ارادے کی مخالفت نہیں کرسکتا۔