قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ
آپ کہہ دیجئے! کہ میں تم ہی جیسا انسان ہوں مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے (١) کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے سو تم اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو، اور ان مشرکوں کے لئے (بڑی ہی) خرابی ہے۔
﴿قُلْ﴾ اے نبی ! ان سے کہہ دیجیے : ﴿إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ﴾ ” میں تو تمہارے جیاس ہی ایک انسان ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے۔“ یعنی میرا وصف اور میرا وظیفہ یہ ہے کہ میں تمہارے جیاس بشر ہوں، میرے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں اور نہ میرے اختیار میں وہ عذاب ہے جس کے لئے تم جلدی مچا رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس وحی کے ذریعے سے مجھے تم پر فضیلت عطا کی، اس کے ذریعے سے مجھے تم سے ممتاز کیا اور اس کے لئے مجھے مختص کیا، جو وحی اس نے میرے طرف بھیجی، مجھے اس کی اتباع اور تمہیں اس کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا۔ ﴿فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ ﴾ ” لہٰذا سیدھے اس طرف متوجہ رہو‘ یعنی میں جن امور کے بارے میں تمہیں خبر دے رہا ہوں ان کی تصدیق، اوامر کی اتباع اور نواہی سے اجتناب کر کے، اس راستے پر گامزن ہوجاؤ جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ یہ حقیقت استقامت ہے اور پھر اس پر قائم رہو۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿إِلَيْهِ﴾ میں اخلاص کی طرف اشارہ ہے، یعنی عمل کرنے والے کو چاہئے کہ وہ اپنے عمل کا مقصد اللہ تعالیٰ اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچنا قرار دے، اس طرح اس کا عمل خالص، صالح اور نفع مند ہوگا اور اخلاص کی عدم موجودگی سے اس کا عمل باطل ہوجائے گا اور چونکہ بندہ، خواہ وہ استقامت کا کتنا ہی حریص کیوں نہ ہو، مامورات میں تقصیر منہیات کے ارتکاب کی بنا پر خلل کا شکار ہوجاتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو استغفار کی دوا کے استعمال کا حکم دیا ہے، جوتوبہ کو متضمن ہے، لہٰذا فرمایا : ﴿وَاسْتَغْفِرُوهُ﴾ ” اور اس سے مغفرت طلب کرو۔“ پھر ترک استقامت پر اللہ تعالیٰ نے وعید سنائی، چنانچہ فرمایا : ﴿وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ ﴾ ” مشرکین کے لئے ہلاکت ہے جو زکوٰۃ نہیں دیتے۔“ یعنی جو اللہ کو چھوڑ کر ان ہستیوں کی عبادت کرتے ہیں جو کسی کو نفع و نقصان دینے کا اختیار رکھتی ہیں نہ موت و حیات کا اور نہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کا۔ انہوں نے اپنے آپ کو گندگی میں دھنسا لیا ہے اور وہ اپنے رب کی توحید اور اخلاص کے ذریعے سے اپنے آپ کو پاک نہیں کرتے، وہ نماز پڑھتے ہیں نہ زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ توحید اور نماز کے ذریعے سے اپنے رب کے لئے اخلاص رکھتے ہیں نہ زکوٰۃ کے ذریعے سے مخلوق کو نفع پہنچاتے ہیں۔ ﴿وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ﴾ ” اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں۔“ یعنی وہ حیات بعد الموت پر ایمان رکھتے ہیں نہ جنت اور جہنم پر، اس لئے جب ان کے دلوں سے خوف زائل ہوگیا تو انہوں نے ایسے ایسے کام کئے ہیں جو آخرت میں انہیں سخت نقصان دیں گے۔