وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ وَمِن بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ
اور انہوں نے کہا کہ تو جس کی طرف ہمیں بلا رہا ہے ہمارے دل تو اس سے پردے میں ہیں (١) اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے (٢) اور ہم میں اور تجھ میں ایک حجاب ہے، اچھا تو اب اپنا کام کئے جا ہم بھی یقیناً کام کرنے والے ہیں (٣)
﴿ وَقَالُوا﴾ یعنی اس کتاب کریم سے روگردانی کرنے والے، اس سے اپنے عدم انتفاع اور اس تک پہنچانے والے دروازوں کے بند ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ﴿قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ ﴾ ” ہمارے دل پردوں میں ہیں۔“ یعنی پردوں میں ڈھانپے ہوئے ہیں۔ ﴿مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ ﴾ ” اس چیز سے جس چیز کی طرف تم ہمیں دعوت دیتے ہو اور اس سے ہمارے کانوں میں بوجھ ہے۔“ یعنی ہمارے کانوں میں گرانی ہے پس ہم سن نہیں سکتے۔ ﴿وَمِن بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ ﴾ ” اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے“ اس لئے ہم تجھے دیکھ نہیں سکتے۔ ان کا مقصد صرف ہر لحاظ سے اس کتاب عظیم سے اعراض کا اظہار تھا، انہوں نے اس کتاب سے اپنے بغض اور اپنے باطل موقف سے رضامندی کا اظہار کیا، اس لئے انہوں نے کہا : ﴿فَاعْمَلْ إِنَّنَا عَامِلُونَ﴾ ” پس تو اپنا کام کئے جا، ہم اپنا کام کرنے والے ہیں۔“ یعنی جیسے اپنے دین پر عمل کرنا تم پسند کرتے ہو ویسے ہی ہم بھی اپنے دین پر پوری رضا مندی کے ساتھ عمل پیرا ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سب سے بڑی محرومی ہے کہ وہ ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی پر راضی ہوگئے، ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کیا اور دنیا کے بدلے آخرت کو بیچ دیا۔