وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ
اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
گویا نفوس انسانی تقویٰ کی خصائل کی معرفت کے مشتاق ہوئے، جن کے ذریعے سے فتح و نصرت اور فلاح و سعادت حاصل ہوتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں تقویٰ کے اہم ترین خصائل کا ذکر فرمایا جن کو اگر بندہ مومن قائم کرلے تو پھر دوسرے خصائل تقویٰ کو وہ بطریق اولیٰ اختیار کرے گا۔ ہمارے اس قول کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں ” تقویٰ“ کا لفظ تین بار ذکر فرمایا ہے۔ ایک دفعہ بغیر کسی قید کے علی الاطلاق ذکر فرمایا ﴿أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ﴾ ” جو متقین کے لیے تیار کی گئی ہے“ دو دفعہ تقویٰ کا ذکر مقید طور پر کیا ﴿وَاتَّقُوا اللَّـهَ ﴾ ” اللہ سے ڈرو“ ﴿وَاتَّقُوا النَّارَ﴾ ” آگ سے ڈرو۔“ پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ﴾ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی یوں آتا ہے ” اے ایمان والو ! فلاں کام کرویا فلاں کام چھوڑ دو۔۔۔“ تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایمان ہی وہ سبب ہے جو اس حکم کی اطاعت کا داعی اور موجب ہے اور اس نہی سے اجتناب کا باعث ہے، کیونکہ ایمان ان تمام امور کی تصدیق کا مل کا نام ہے جن کی تصدیق واجب ہے اور اعضاء کے اعمال کو مستلزم ہے، چنانچہ انہیں کئی کئی گنا سود کھانے سے منع کیا۔ جیسا کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کی عادت تھی یا وہ لوگ ہیں جو شرعی احکام کی پروا نہیں کرتے۔ زمانہ جاہلیت میں سود لینے کا طریقہ یہ تھا کہ جب تنگ دست مقروض کے قرض کی ادائیگی کا وقت ہوجاتا اور اس سے کچھ حاصل ہونے کی امید نہ ہوتی تو قرض خواہ اس سے کہتا کہ وہ یا تو اپنا قرض ادا کر دے یا قرض خواہ مدت بڑھا دے گا اور مقروض کے ذمہ جو رقم ہے اس میں اضافہ ہوجائے گا۔ پس تنگ دست مقروض مجبور ہوجاتا اور اپنی جان چھڑانے اور وقتی طور پر راحت کی خاطر قرض خواہ کی شرائط کا التزام کرلیتا۔ اس طرح اس کے ذمہ جو قرض ہوتا وہ بغیر کسی فائدے کے، بڑھ کر کئی گنا ہوجاتا۔ پس اللہ تعالیٰ کے قول ﴿أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ﴾ میں سود کی برائی پر سخت تنبیہ بیان ہوئی ہے اور اس میں سود یک تحریم کی حکمت کی طرف اشارہ ہے اور سود کی حرمت کی حکمت یہ ہے کہ اس میں بے انتہا ظلم ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سود لینے سے روک دیا اور وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیا ہے کہ تنگ دست مقروض کو مہلت دی جائے اور بغیر کسی اضافے کے اس کے ذمہ وہی قرض باقی رہنے دیا جائے جو اصل زر ہے اور اس پر اصل زر سے زیادہ رقم عائد کرنا سخت ظلم ہے۔ لہٰذا متقی مومن پر لازم ہے کہ وہ سود کو ترک کر دے اور اس کے قریب نہ جائے کیونکہ سود کو ترک کرنا موجبات تقویٰ میں سے ہے۔