فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
پس جب کبھی ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لے کر آئے تو یہ اپنے پاس کے علم پر اترانے لگے (١) بالآخر جس چیز کو مذاق میں اڑا رہے تھے وہی ان پر الٹ پڑی۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے جرم عظیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ﴾ ” جب ان کے رسول ان کے پاس معجزات لے کر آئے۔“ یعنی کتب الٰہیہ، بڑے بڑے معجزات اور وہ علم نافع لے کر مبعوث ہوئے جو ہدایت اور گمراہی، حق اور باطل میں امتیاز کرتا ہے ﴿ فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ الْعِلْمِ ﴾ ” تو وہ اسی علم پر نازاں رہے جو ان کے پاس تھا۔ یہی وہ انبیاء و رسل کے دین سے متناقض اور باطل علمی نظریات ہی میں مگن رہے اور یہ معلوم ہے کہ ان کا اس کا نام نہاد علم پر خوش ہونا، اس علم پر انکی رضا اور اس کے ساتھ تمسک اور حق کے ساتھ ان کی شدید عداوت پر دلالت کرتا ہے جسے لے کر رسول مبعوث ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے باطل نظریات کو حق قرار دیا اور یہ ان تمام علوم کے لئے عام ہے جن کے ذریعے سے انبیاء و رسل کے لائے ہوئے علم کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ان کے ان علوم میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ مستحق علوم فلسفہ اور منطق یونان ہیں جن کے ذریعے سے قرآن کی بہت سی آیات کو رد کیا جاتا ہے، دلوں میں قرآن کی قدر کم کی جاتی ہے۔ قرآن کے قطعی اور یقینی دلائل کو لفظی دلائل قرار دیا جاتا ہے جو یقین کا فائدہ نہیں دیتے اور ان دلائل پر اہل سفاہت اور اہل باطل کی عقل کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سب سے بڑا الحاد، ان کی مخالفت اور معارضت ہے۔ وَاللہُ الْمُسْتَعَانْ۔ ﴿ وَحَاقَ بِهِم﴾ ” اور انہیں گھیر لیا“ ﴿مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ﴾ اس عذاب نے جس کا وہ تمسخر اڑایا کرتے تھے۔