وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ ۗ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
اور یہ تو محض تمہارے دل کی خوشی اور اطمینان قلب کے لئے ہے ورنہ مدد تو اللہ کی طرف سے ہے جو غالب و حکمت والا ہے۔
اس کے بعد فرمایا :﴿وَمَا جَعَلَهُ اللَّـهُ إِلَّا بُشْرَىٰ﴾” اللہ نے اس چیز کو (یعنی فرشتے اتار کر تمہیں کمک پہنچانے کو) صرف خوش خبری بنایا ہے“ تاکہ اس سے تمہیں خوشی حاصل ہو۔ ﴿وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُم بِهِ ﴾” اور اس بشارت سے تمہارے دل مطمئن ہوجائیں۔“ ﴿وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّـهِ ﴾” ورنہ مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے“ لہٰذا اپنے اسباب پر اعتماد نہ کرو بلکہ اسباب صرف تمہارے دلوں کے اطمینان کے لیے ہیں۔ اصل فتح، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، وہ تو اللہ کی مشیت ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس کی مدد کرنے کا ارادہ فرما لے وہی فتح یاب ہوتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو اس فریق کی مدد کرے جس کے پاس اسباب ہیں، جیسے عام طور پر مخلوق ہیں اس کی سنت جاری ہے اور اگر چاہے تو کمزور اور معمولی فریق کی مدد کرے، تاکہ اس کے بندوں کو معلوم ہوجائے کہ سب کام اس کے ہاتھ میں ہیں اور سب معاملات کا دار و مدار اس کی مرضی پر ہے۔ اس لیے فرمایا : ﴿وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّـهِ﴾ ” مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب ہے“ کوئی مخلوق اس کے آگے سرتابی نہیں کرسکتی۔ بلکہ تمام مخلوقات اس کی تدبیر اور غلبے کے آگے کمزور اور مجبور ہیں۔ ﴿الْحَكِيمِ ﴾” حکمتوں والا ہے“ جو ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھتا ہے۔ بعض اوقات کافروں کو مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہوجاتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت ہوتی ہے۔ کفار کا یہ غلبہ مستقل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَلَوْ يَشَاءُ اللَّـهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ﴾ (محمد :48؍ 4) ” اگر اللہ چاہتا تو خود ہی بدلہ لے لیتا، لیکن اس کا منشا یہ ہے کہ تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے سے لے۔ “