سورة غافر - آیت 29

يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ فَمَن يَنصُرُنَا مِن بَأْسِ اللَّهِ إِن جَاءَنَا ۚ قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے میری قوم کے لوگو! آج تو بادشاہت تمہاری ہے کہ اس زمین پر تم غالب ہو، لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آگیا تو کون ہماری مدد کرے گا ٢١) فرعون بولا، میں تو تمہیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود دیکھ رہا ہوں اور میں تو تمہیں بھلائی کی راہ بتلا رہا ہوں۔ (٣)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اس صاحب ایمان نے اپنی قوم کی خیر خواہی کرتے ہوئے ان کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا اور انہیں ظاہری اقتدار کے دھوکے میں مبتلا ہونے سے روکا، اس نے کہا : ﴿ يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ﴾ ” اے میری قوم ! آج تمہاری بادشاہت ہے،“ یعنی دنیا کے اندر ﴿ ظَاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ ﴾ ” تم ہی اپنی سر زمین میں غالب ہو“ تم اپنی رعیت پر غالب ہو اور ان پر جو حکم چاہتے ہونا فذ کرتے ہو۔ فرض کیا تمہیں یہ اقتدار پوری طرح حاصل ہوجاتا ہے، حالانکہ تمہارا یہ اقتدار مکمل نہ ہوگا ﴿ فَمَن يَنصُرُنَا مِن بَأْسِ اللّٰـهِ ﴾ ” تو ہمیں اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا۔“ ﴿ إِن جَاءَنَا ﴾ ” اگر وہ (عذاب) ہمارے پاس آجائے۔ “ یہ اس مومن شخص کی طرف سے دعوت کا نہایت حسین اسلوب ہے کیونکہ اس نے معاملے کو اپنے اور ان کے درمیان مشترک رکھا۔ اس کا قول تھا۔ ﴿ فَمَن يَنصُرُنَا ﴾ اور ﴿ إِن جَاءَنَا ﴾ تاکہ ان کو باور کرا سکے کہ وہ ان کا اسی طرح خیر خواہ ہے جس طرح وہ خود اپنی ذات کا خیر خواہ ہے اور ان کے لئے بھی وہی کچھ پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ ﴿ قَالَ فِرْعَوْنُ ﴾ اس بارے میں فرعون نے اس مرد مومن کی مخالفت اور اپنی قوم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع سے بچانے کے لئے ان کو فریب میں مبتلا کرتے ہوئے کہا : ﴿ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ ﴾ ” وہ اپنے قول : ﴿ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ﴾ ” میں تمہیں وہی بات سمجھاتا ہوں جو مجھے سوجھی ہے“ میں بالکل سچا ہے مگر اسے کیا بات سوجھی ہے؟ اسے یہ بات سوجھی ہے کہ وہ اپنی قوم کو ہلکا (بے وقوف) سمجھے اور وہ اس کی پیروی کریں تاکہ اس کی ریاست قائم رہے۔ وہ جانتا تھا کہ حق اس کے ساتھ نہیں ہے بلکہ حق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے، اسے اس بات کا یقین تھا بایں ہمہ اس نے حق کا انکار کردیا۔ البتہ اس نے اپنے اس قول میں جھوٹ بولا ﴿ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ ﴾ ” اور میں تو تمہیں صرف ہدایت کی راہ دکھاتا ہوں۔“ یہ حق کو بدل ڈالنا ہے۔ اگر فرعون نے اپنی قوم کو صرف اتنا سا حکم دیا ہوتا کہ وہ اس کے کفر اور گمراہی میں اس کی اتباع کریں تو یہ برائی کم تر ہوتی، مگر اس نے تو اپنی قوم کو اپنی اتباع کا حکم دیا اور اس پر مستز اد یہ کہ اسے یہ بھی زعم تھا کہ اتباع حق کی اتباع ہے اور حق کی اتباع کو گمراہی خیال کرتا تھا۔