سورة غافر - آیت 27

وَقَالَ مُوسَىٰ إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُم مِّن كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

موسٰی (علیہ السلام) نے کہا میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس تکبر کرنے والے شخص (کی برائی) سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔ (١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَقَالَ مُوسَىٰ﴾” موسیٰ نے کہا :“ جب فرعون نے یہ بڑ ہانکی، جس کا موجب اس کی سرکشی تھی اور سرکشی پر مبنی یہ بات کہنے میں فرعون نے اپنی قوت و اقتدار سے مدد لی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے مدد طلب کرتے ہوئے کہا : ﴿ إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُم ﴾ ” میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ لے چکا ہوں۔“ یعنی میں اس کی ربوبیت کی پناہ مانگتا ہوں، جس کے ذریعے سے میرے رب نے تمام امور کی تدبیر کی ہے ﴿ مِّن كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ ﴾ ” ہر متکبر سے جو حساب کے دن پر ایمان نہیں لاتا۔“ یعنی جس کا تکبر اور یوم حساب پر عدم ایمان، اسے شر اور فساد پر آمادہ کرتا ہے۔ اس عموم میں فرعون اور اس کے ہم صفات دیگر افراد داخل ہیں جیسا کہ قریب ہی گزشتہ سطور میں یہ قاعدہ گزر چکا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یوم حساب کے منکر ہر متکبر سے محفوظ و مامون رکھا اور آپ کو ایسے اسباب مہیا فرمائے جن کی بنا پر فرعون اور اس کے درباریوں کا شر آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ ان جملہ اسباب میں سے وہ صاحب ایمان شخص بھی ہے جو آل فرعون سے تعلق رکھتا تھا بلکہ کاروبار مملکت میں شامل تھا۔ لازماً اس کی بات سنی جاتی ہوگی خاص طور پر جب وہ ان سے موافقت کا اظہار کرتا تھا اور اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا کیونکہ اس صورت میں عام طور پر وہ اس کی رعایت رکھتے تھے اگر وہ ظاہر میں ان کی موافقت نہ کرتا تو وہ یہ رعایت نہ رکھتے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے چچا ابو طالب کے ذریعے سے قریش سے محفوظ رکھا۔ ابو طالب ان کے نزدیک ایک بڑا سردار تھا ان کے دین ہی کی موافقت کرتا تھا۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو وہ آپ کی اس طرح حفاظت نہ کرسکتا۔