وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ
اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو مار ڈالوں (١) اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو پکارے (٢) مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی (بہت بڑا) فساد برپا نہ کر دے۔ (٣)
﴿ وَقَالَ فِرْعَوْنُ ﴾ فرعون نے نہایت تکبر کے ساتھ اور اپنی قوم کے بے وقوفوں کو فریب میں مبتلا کرتے ہوئے کہا : ﴿ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ﴾ ” مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور اسے چاہئے کہ وہ اپنے رب کو بلا لے۔“ فرعون سمجھتا تھا۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس کا برا کرے۔۔۔ اگر اسے اپنی قوم کی دل جوئی مقصود نہ ہوتی تو وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرا دیتا اور فرعون یہ بھی سمجھتا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنے رب سے دعا کرنا اسے اپنے ارادے پر عمل کرنے سے باز نہیں رکھ سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر فرمایا جس کی بنا پر فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اس نے اپنی قوم کی خیر خواہی اور زمین پر ازالہ شر کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا تھا، چنانچہ اس نے کہا : ﴿ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ ﴾ ”مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ تمہارے دین کو نہ بدل دے۔“ جس پر تم چل رہے ہو ﴿ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ ﴾ ” یا وہ ملک میں فسادد نہ پیدا کردے۔“ یہ بہت ہی تعجب اخیز امر ہے کہ ایک بدترین انسان لوگوں کی خیر خواہی کے لئے ان کو مخلوق میں سے بہترین ہستی کی اتباع سے روکے۔ یہ درحقیقت باطل کو فریب کاری کے خوبصورت پردے میں چھپانا ہے۔ یہ کام صرف وہی عقل سر انجام دے سکتی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ ﴾ (الزخرف :43؍54) ” فرعون نے اپنی قوم کو ہلکا (بے وقوف) جانا اور انہوں نے بھی اس کی اطاعت کی، وہ درحقیقت فاسقوں کا گروہ تھا۔ “