سورة غافر - آیت 18

وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ ۚ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور انہیں بہت ہی قریب آنے والی (١) (قیامت سے) آگاہ کر دیجئے جب کہ دل حلق تک پہنچ جائیں گے (٢) اور سب خاموش ہونگے ظالموں کا کوئی دلی دوست ہوگا نہ سفارشی، کہ جس کی بات مانی جائے گی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے: ﴿وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ﴾ ”) اے نبی !( انہیں )قریب( آ پہنچنے والے دن سے ڈرائیے“ یعنی انہیں قیامت کے دن سے ڈرائیے جو بہت قریب ہے، اس کے احوال اور اس کے زلزلوں کے پہنچنے کا وقت ہوگیا ہے ﴿إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ﴾ ” جب کہ دل گلوں تک آرہے ہوں گے۔“ یعنی ان کے دل ہوا ہوجائیں گے۔ خوف اور کرب سے دل گلے میں اٹک جائیں گے اور آنکھیں اوپر کی جانب اٹھی کی اٹھی رہ جائیں گی ﴿کَاظِمِينَ﴾ وہ کلام نہیں کرسکیں گے سوائے اس شخص کے، جسے رحمٰن اجازت دے اور وہ درست بات کہے گا۔ وہ دلوں میں چھپے ہوئے خوف اور دہشت کو زبان پر نہیں لائیں گے۔ ﴿مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ﴾ اور ظالموں کا کوئی قریبی اور ساتھی نہیں ہوگا ﴿ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ﴾ ” اور نہ کوئی ایسا سفارشی ہوگا جس کی بات مانی جائے“ کیونکہ اگر سفارشیوں کی سفارش کو فرض کر بھی لیا جائے تب بھی یہ سفارشی شرک کے ذریعے سے اپنے آپ پر ظلم کرنے والوں کی سفارش نہیں کریں گے۔ اگر یہ سفارش کریں بھی تو اللہ تعالیٰ ان کی سفارش پر راضی ہوگا نہ اس کو قبول کرے گا۔