سورة غافر - آیت 15

رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بلند درجوں والا عرش کا مالک وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تاکہ ملاقات کے دن ڈرائے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے جلال و کمال کا ذکر فرمایا جو عبادت میں اخلاص کا تقاضا کرتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ﴾ ” وہ درجات عالی کا مالک اور صاحب عرش ہے۔“ یعنی وہ بلند اور اعلیٰ ہے جو عرش پر مستوی ہے، عرش اس کے لئے مختص ہے، اس کے درجات بہت بلند ہیں وہ ان کی وجہ سے مخلوقات سے علیحدہ ہے اور ان کے ساتھ اس کا مرتبہ بلند ہے۔ اس کے اوصاف جلیل القدر ہیں اور اس کی ذات اس سے بلند تر ہے کہ اس کا قرب حاصل کیا جائے سوائے پاک اور طاہر و مطہر علم کے ذریعے سے اور وہ ہے اخلاص جو مخلص مومنین کے درجات کو بلند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے اور تمام مخلوق پر فوقیت عطا کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رسالت اور وحی کی نعمت کا ذکر کرتا ہے، فرمایا : ﴿يُلْقِي الرُّوحَ﴾ ” وہ نازل کرتا ہے روح۔“ یعنی وحی، جو قلب و روح کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہے جو اجساد کے لئے ارواح کی ہے۔ جیسے روح کے بغیر بدن زندہ ہوتا ہے نہ زندہ رہ سکتا ہے اسی طرح روح اور قلب، روح وحی کے بغیر درست رہ سکتے ہیں نہ فلاح سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں۔ ﴿يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ﴾ ” اپنے حکم سے وحی بھیجتا ہے“ جس میں بندوں کی منفعت اور مصلحت ہے ﴿عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ﴾ ” اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے۔“ اس سے اللہ تعالیٰ کے رسول مراد ہیں جنہیں اس نے فضیلت بخشی اور انہیں اپنی وحی اور بندوں کو دعوت دینے کے لئے مختص فرمایا۔ انبیاء و مرسلین مبعوث کرنے کا فائدہ بندوں کے لئے، ان کے دین، دنیا اور آخرت میں سعادت کا حصول اور ان کے دین، دنیا اور آخرت میں بدبختی کو دور کرنا ہے، بنا بریں فرمایا : ﴿ لِيُنذِرَ﴾ تاکہ ان لوگوں کو ڈرائے جن کی طرف وحی بھیجی گئی ہے ﴿ يَوْمَ التَّلَاقِ﴾ ” ملاقات کے دن سے“ یعنی وہ اس کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ملاقات کے دن سے ڈرائے اور انہیں ان اسباب کو تیار کرنے کے لئے آمادہ کرے جو ان کو اس صورت حال سے نجات دیتے ہیں جس میں وہ گھرے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن کو ( يَوْمَ التَّلَاقِ) کے نام سے موسوم کیا ہے کیونکہ اس دن خلاق اور مخلوق کی ملاقات ہوگی، مخلوق ایک دوسرے سے ملاقات کرے گی اور عمل کرنے والے اپنے اعمال اور ان کی جزا کاسامنا کریں گے۔