فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ
تم اللہ کو پکارتے رہو اس کے لئے دین کو خالص کر کے گو کافر برا مانیں (١)
اس لئے اس مقام پر توحید کے جملہ دلائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ فَادْعُوا اللّٰـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ ” پس اللہ کی عبادت کو خالص کر کے اسی کو پکارو۔“ جب اس نے ذکر فرمایا کہ وہ اپنے بندوں کو اپنی نشانیاں دکھاتاہے، تو ایک بڑی نشانی کی طرف اشارہ کیا چنانچہ فرمایا : ﴿وَيُنَزِّلُ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ رِزْقًا﴾ ” اور وہ آسمان سے تمہارے لئے رزق اتارتا ہے۔“ یعنی وہ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے، جس سے تمہیں رزق دیا جاتا ہے، جس سے تم اور تمہارے مویشی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں۔ دینی نعمتیں بھی اسی کی طرف سے ہیں اس سے مراد دینی مسائل، ان کے دلائل اور ان پر عمل ہے اور دنیاوی نعمتیں بھی اسی کی طرف سے ہیں، مثلاً وہ تمام نعمتیں جو بارش سے وجود میں آتی ہیں، بارش سے زمین اور بندوں کو زندگی عطا ہوتی ہے اور یہ چیز قطعی طور پر دلالت کرتی ہے کہ وہ اکیلا ہی معبود برحق ہے جس کے لئے خالص دین متعین ہے جیسا کہ وہ اکیلا ہی منعم حقیقی ہے ﴿وَمَا يَتَذَكَّرُ﴾ جب اللہ تعالیٰ ان آیات کے ذریعے سے نصیحت کرتا ہے تو اس سے نہیں نصیحت حاصل کرتا ﴿إِلَّا مَن يُنِيبُ﴾ مگر وہی شخص جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کی خشیت، اس کی اطاعت اور اس کے سامنے عاجزی اور فروتنی اختیار کرتا ہے۔ پس یہی وہ شخص ہے جو آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور یہ آیات اس کے حق میں رحمت بن جاتی ہیں اور ان آیات سے اسی کی بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ چونکہ آیات الٰہی کا ثمرہ تذکر ہے اور تذکر اللہ تعالیٰ کے اخلاص کا موجب ہے، اس لئے الخاص کے حکم کو ” فا“ کے ذریعے سے اس پر مرتب فرمایا جو سببیت پر دلالت کرتی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ فَادْعُوا اللّٰـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ﴾ یہ دعائے عبادت اور دعائے مسئلہ، دونوں کو شامل ہے۔ اخلاص کا معنی ہے تمام عبادات واجبہ و مستحبہ، حقوق اللہ اور حقوق العباد میں قصد کو اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کرنا، یعنی وہ تمام امور، جن پر تم دین کے طور پر عمل کرتے ہو اور جن کو تم اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بناتے ہو، ان میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص سے کام لو۔ ﴿وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ﴾ ” خواہ یہ کفار کے لئے ناگوار ہی کیوں نہ ہو“ اس لئے تم ان میں ان کی پروا نہ کرو۔ یہ چیز تمہیں تمہارے دین سے نہ پھیر دے، کسی ملامت کرنے والے کی ملامت تمہیں اللہ کے راستے سے روک نہ دے کیونکہ کفار اخلاص کو بہت ناپسند کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿وَإِذَا ذُكِرَ اللّٰـهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ﴾(الزمر:39؍45) ” جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل کراہت سے تنگ ہوجاتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جب اللہ کے سوا خود ساختہ معبودوں کا نام لیا جاتا ہے تو یہ خوش ہوجاتے ہیں۔ “