سورة غافر - آیت 8

رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُمْ وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولاد میں سے (بھی) ان (سب) کو جو نیک عمل ہیں (١) یقیناً تو غالب و باحکمت ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُمْ﴾ ” اے ہمارے رب ! ان کو ہمیشہ رہنے کی بہشتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا“ یعنی جن کا تو نے اپنے رسولوں کی زبان پر وعدہ کیا ﴿وَمَن صَلَحَ ﴾ ” اور جو صالح ہوں“ یعنی جو ایمان اور عمل صالح کے ذریعے سے درست ہوں ﴿مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ﴾ ” ان کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویوں میں سے“ یعنی ان کی بیویوں، عورتوں کے شوہروں، ان کے دوستوں اور رفقا میں سے ﴿وَذُرِّيَّاتِهِمْ﴾ ” اور ان کی اولاد میں سے“ ﴿إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ﴾ بے شک تو ہر چیز پر غالب ہے، تیری عزت کی قسم ! تو ان کے گناہ بخش دیتا ہے، ان کی تکلیف دور کردیتا ہے اور انہیں ہر بھلائی تک پہنچا دیتا ہے۔ ﴿الْحَكِيمُ﴾ ” حکمت والا ہے۔“ ” حکیم“ اس کو کہتے ہیں جو تمام اشیاء کو ان کے لائق حال مقام پر رکھتا ہے۔ اے ہمارے رب ! ہم تجھ سے کسی ایسی چیز کا سوال نہیں کرتے جو تیری حکمت کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ بلکہ تیری حکمت، جس کی تو نے اپنے رسولوں کی زبان پر خبر دی ہے اور تیرا افضل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ تو اہل ایمان کو بخش دے۔