وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ
کافروں کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے (١) جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اس کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے (٢) اور وہاں کے نگہبان ان سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟ جو تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے رہتے؟ (٣) یہ جواب دیں گے ہاں درست ہے لیکن عذاب کا حکم کافروں پر ثابت ہوگیا۔ (٤)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کا ذکر فرمایا جن کو اس نے تخلیق، رزق اور تدبیر میں اکٹھا کیا، دنیا کے اندر وہ سب اکٹھے رہے، قیامت کے روز بھی اکٹھے ہوں گے مگر ان کی جزا کے وقت ان کے درمیان اسی طرح تفریق کردی جائے گی جس طرح انہوں نے دنیا میں ایمان اور کفر، تقویٰ اور فسق و فجور کے اعتبار سے ان کے درمیان فرق تھا، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ ﴾ ” اور جن لوگوں نے کفر کیا انہیں جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔“ یعنی کافروں کو نہایت سختی سے جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ انتہائی سخت فرشتے کوڑوں سے مارتے ہوئے، بہت برے قید خانے، بدترین جگہ، یعنی جہنم کی طرف لے جائیں گے۔ جہاں ہر قسم کا عذاب جمع ہوگا اور ہر قسم کی بدبختی موجود ہوگی۔ جہاں ہر سرور زائل ہوجائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَوْمَ يُدَعُّونَ إِلَىٰ نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ﴾(الطور:52؍13) ” جس روز انہیں آتش جہنم کی طرف دھکیل دھکیل کرلے جایا جائے گا۔“ یعنی ان کو دھکے دے کر جہنم میں پھینکا جائے گا کیونکہ وہ جہنم میں داخل ہونے سے مزاحمت کریں گے، ان کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ ﴿ زُمَرًا ﴾ متفرق جماعتوں کی صورت میں۔ ہر گروہ اس گروہ کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اس کے اعمال مناسبت رکھتے ہوں گے اور جن کے کرتوت ایک دوسرے کے مشابہ ہوں گے۔ وہ ایک دوسرے کو لعنت ملامت اور ایک دوسرے سے برأت اور بیزاری کا اظہار کریں گے۔ ﴿ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا ﴾ یعنی جب جہنم کے قریب پہنچیں گے ﴿فُتِحَتْ ﴾ ” کھول دیئے جائیں گے“ ان کے لئے یعنی ان کی خاطر ﴿ أَبْوَابُهَا ﴾ ” اس کے دروازے“ ان کی آمد اور مہمانی کرتے ہوئے جہنم کے دروازے کھولے جائیں گے۔ ﴿ وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا ﴾ جہنم کے داروغے ابدی بدبختی اور سرمدی عذاب کی بشارت دیں گے اور ان اعمال پر، جن کے سبب سے وہ اس بدترین جگہ پر پہنچے، انہیں زجر و توبیخ کرتے ہوئے کہیں گے : ﴿ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ ﴾ ” کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے تھے۔“ یعنی تمہاری جنس میں سے، جنہیں تم پہچانتے اور ان کی صداقت کو خوب جانتے تھے اور تم ان سے ہدایت حاصل کرسکتے تھے؟ ﴿ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ﴾ ” وہ تم کو تمہارے رب کی آیتیں پڑھ کر سناتے تھے“ جن آیات کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء و مرسلین کو مبعوث فرمایا تھا جو روشن ترین دلائل و براہین کے ذریعے سے حق الیقین پر دلالت کرتی تھیں۔ ﴿ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَا ﴾ ” اور وہ تمہیں ان دن کے پس آنے (ملاقات) سے ڈراتے تھے۔“ اور یہ چیز اس دن کے ڈر کو مدنظر رکھتے ہوئے تمہارے ان رسولوں کی اتباع اور اس دن کے عذاب سے بچنے کی موجب تھی، مگر تمہارا حال اس مطلوبہ حال کے بالکل برعکس تھا۔ ﴿ قَالُوا ﴾ وہ اپنے گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہونے کا اعتراف و اقرار کرتے ہوئے کہیں گے: ﴿ بَلَىٰ ﴾ کیوں نہیں ! ہمارے پاس ہمارے رب کے رسول واضح دلائل اور نشانیوں کے ساتھ آئے، انہوں نے ان نشانیوں کو ہمارے سامنے پوری طرح واضح کردیا تھا اور انہوں نے ہمیں آج کے دن سے ڈرایا تھا ﴿وَلَـٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴾ ” لیکن عذاب کا حکم (وعدہ) کافروں پر ثابت ہو کر رہا۔“ یعنی ان کے کفر کے سبب سے ان پر عذاب واجب ہوگیا۔ یہ عذاب ہر اس شخص کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتا ہے اور اس چیز کو جھٹلاتا ہے جسے لے کر انبیاء و رسل مبعوث ہوئے۔ پس یہ کفار اپنے گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی حجت کے قائم ہونے کا اعتراف کریں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہنم کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا ﴾ اور جنت کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَفُتِحَتْ ﴾ یعنی واؤ کے ساتھ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل جہنم کے وہاں مجرد پہنچنے پر جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے، انہیں انتظار کی مہلت نہیں دی جائے گی، جہنم کے دروازے ان کے پہنچنے پر اور ان کے سامنے اس لئے کھلیں گے کہ اس کی حرارت بہت زیادہ اور اس کا عذاب انتہائی شدید ہوگا۔ رہی جنت، تو یہ بہت ہی عالی مرتبہ مقام ہے، جہاں ہر شخص نہیں پہنچ سکتا۔ صرف وہی شخص جنت تک پہنچ سکتا ہے جو ان وسائل کو اختیار کرتا ہے جو جنت تک پہنچاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ جنت میں داخل ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل تکریم ہستی کی سفارش کے محتاج ہوں گے۔ مجرد وہاں پہنچنے پر ان کے لئے جنت کے دروازے نہیں کھول دیئے جائیں گے بلکہ وہ جناب نبی مصطفی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سفارش کرائیں گے، آپ اہل ایمان کی سفارش کریں گے اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش کو قبول فرمائے گا۔ یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ جہنم اور جنت کے دروازے ہوں گے، جو کھولے اور بند کئے جا سکیں گے۔ اور ہر دروازے پر داروغہ مقرر ہوگا۔ یہ خالص گھر میں جہاں صرف وہی شخص داخل ہوسکے گا جو ان کا مستحق ہوگا بخلاف عام گھروں اور جگہوں کے، جہاں ہر کوئی داخل ہوسکتا ہے۔