وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی (١) نامہ اعمال حاضر کئے جائیں گے نبیوں اور گواہوں کو لایا جائے گا (٢) اور لوگوں کے درمیان حق حق فیصلے کردیئے جائیں گے (٣) اور وہ ظلم نہ کیے جائیں گے
﴿ وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا ﴾ ” اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی“ اس سے معلوم ہوا کہ موجودہ تمام روشنیاں قیامت کے روز مضمحل ہو کر ختم ہوجائیں گی اور حقیقت میں ایسا ہی ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ (قیامت کے روز) سورج بے نور ہوجائے گا، چاند کی روشنی ختم ہوجائے گی، ستارے بکھر جائیں گے اور لوگ تاریکی میں ڈوب جائیں گے، تب اس وقت زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی جب وہ تجلی فرمائے گا اور بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے نازل ہوگا۔ اس دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کو ایسی قوت اور ایسی تخلیق عطا کرے گا جس کی بنا پر وہ اللہ تعالیٰ کی تجلی کو برداشت کرنے کی قوت سے سرفراز ہوں گے، اللہ تعالیٰ کا نور ان کو جلا نہیں ڈالے گا، اس دن ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنا ممکن ہوگا ورنہ اللہ تعالیٰ کا نور اس قدر عظیم ہے کہ اگر وہ اپنے چہرے سے پردہ ہٹا دے تو جہاں تک اس کی نگاہ پہنچے اس کے چہرے کا نور تمام مخلوق کو جلا کر راکھ کر ڈالے۔ ﴿وَوُضِعَ الْكِتَابُ﴾ ” اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی۔“ یعنی اعمال نامہ کھول کر پھیلا دیا جائے گا تاکہ بندہ اپنی نیکیوں اور گناہوں کو پڑھ لے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَـٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا ﴾ (الکہف:18؍49)” اور اعمال نامہ رکھ دیا جائے گا تو آپ مجرموں کو دیکھیں گے کہ وہ اپنے اعمال نامے کے مندرجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے ہائے ہماری ہلاکت ! یہ کیسی کتاب ہے کہ ہمارا کوئی چھوٹا بڑا عمل ایسا نہیں جو اس نے درج نہ کیا ہو۔ وہ اپنے تمام اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔“ اور عمل کرنے والے سے مکمل عدل و انصاف کے ساتھ کہا جائے گا۔ ﴿ اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ﴾ (بنی اسرائیل: 17؍14)” اپنی کتاب (اعمال) پڑھ، آج اپنا حاسب لینے کے لئے تو خود ہی کافی ہے۔ “ ﴿ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ ﴾ ” اور نبیوں کو لایا جائے گا“ تاکہ ان سے تبلیغ اور ان کی امتوں کے رویے کے بارے میں سوال کیا جائے اور یہ ان پر گواہی دیں ﴿ وَالشُّهَدَاءِ﴾ ” اور گواہ“ یعنی فرشتے، زمین اور انسان کے اعضا گواہی دیں گے ﴿ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ ﴾ ” اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔“ یعنی پورے عدل اور کامل انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا کیونکہ یہ حساب ایسی ہستی کی طرف سے کیا جائے گا جو ذرہ بھر ظلم نہیں کرتی اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس کی کتاب، یعنی لوح محفوظ ان کے تمام اعمال پر مشتمل ہے۔ کراماً کاتبین اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے، بندے جو عمل بھی کرتے ہیں یہ ان کے اعمال ناموں میں درج کرلیتے ہیں۔ عادل ترین گواہ اس فیصلے میں گواہی دیں گے اور فیصلہ وہ ہستی کرے گی جو اعمال کی مقدار اور ان کے ثواب و عقاب کے استحقاق کی مقدار کو خوب جانتی ہے۔ فیصلہ ہوگا اور تمام مخلوق اس کا اقرار کرے گی۔ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کے عدل کا اعتراف کرے گی۔ وہ اس کی عظمت، اس کے علم و حکمت، اور اس کی رحمت کا اس طرح اعتراف کریں گے کہ دل میں کبھی اس کا خیال گزرا ہوگا نہ ان کی زبانوں نے کبھی اس کی تعبیر کی ہوگی۔