وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ
اور صور پھونک دیا جائے گا پس آسمانوں اور زمین والے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے (١) مگر جسے اللہ چاہے (٢) پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پس وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے (٣)
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی عظمت کا خوف دلانے کے بعد، قیامت کے احوال کے ذریعے سے انہیں ڈرایا اور انہیں ترغیب و ترہیب دی، چنانچہ فرمایا : ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ﴾ ” اور صور پھونکا جائے گا۔“ یہ بہت بڑا سینگ ہے جس کی عظمت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شخص نہیں جانتا یا صرف اس شخص کو علم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مطلع کردیا ہو، اس صور میں اسرافیل علیہ السلام جو اللہ تعالیٰ کے مقرب اور اس کا عرش اٹھانے والے فرشتوں میں ہیں۔ پھونک ماریں گے﴿فَصَعِقَ ﴾ تو بے ہوش ہوجائیں گے یا مر جائیں گے۔ اس بارے میں یہ دونوں قول منقول ہیں۔ ﴿ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ﴾ ” جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں۔“ یعنی زمین اور آسمانوں کی تمام مخلوق جب صور پھونکنے کی آواز سنے گی تو اس کی شدت اور ان احوال کے بارے میں علم ہونے کے باعث گھبرا اٹھے گی، جن کا یہ آواز مقدمہ ہے۔ ﴿ إِلَّا مَن شَاءَ اللّٰـهُ﴾ ” مگر جسے اللہ (بچانا) چاہے۔“ یعنی ان لوگوں کے سوا جن کو اللہ تعالیٰ مضبوط اور ثابت قدم رکھے، مثلاً شہد اور بعض دیگر لوگ، ان پر بے ہوشی طاری نہیں ہوگی یہ پہلی پھونک نَفْخَۃُ الصَّعْقْ اور نَفْخَۃُ الْفَزَعْ ہے۔ ﴿ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ ﴾ ” پھر اس میں (ایک اور)پھونک ماری جائے گی۔“ یہ نَفْخَۃُ الْبَعْثْ ہے ﴿فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ﴾ ” تو وہ فوراً اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔“ یعنی وہ حساب و کتاب کے لئے اپنی قبروں میں سے اٹھ کھڑے ہوں گے، جبکہ ان کی تخلیقِ اجساد اور تخلیق ارواح مکمل ہوچکی گی۔ ان کی آنکھیں اوپر کو اٹھی ہوئی ہوں گی ﴿ يَنظُرُونَ ﴾ ’’وہ دیکھ رہے ہوں گے“ کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا کرتا ہے۔