لَّهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
آسمانوں اور زمین کی کنجیوں کا مالک وہی ہے (١) جن میں لوگوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا وہی خسارہ پانے والے ہیں (٢)۔
﴿ لَّهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ” آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔“ یعنی علم اور تدبیر کے لحاظ سے زمین و آسمان کی کنجیاں اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اس لئے ﴿مَّا يَفْتَحِ اللّٰـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴾(فاطر:35؍2) ” اللہ اپنے بندوں کے لئے اپنی رحمت کا جو دروازہ کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور اگر وہ اپنی رحمت کو روک لے تو اس کے بعد اسے کوئی کھول نہیں سکتا اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ “ جب اللہ تعالیٰ کی عظمت واضح ہوگئی جو اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ بندوں کے دل اللہ تعالیٰ کے اجلاس و اکرام سے لبریز ہوں تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال بیان کیا جن کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہ کی جس طرح قدر کرنے کا حق ہے۔ فرمایا :﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللّٰـهِ﴾ ” اور جنہوں نے آیات الٰہی کا انکار کیا“ جو حق، یقین اور صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتی ہیں ﴿أُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ﴾ ” یہی لوگ ہیں خسارہ پانے والے۔“ یعنی اس چیز کے بارے میں خسارے میں رہے جس سے قلوب کی اصلاح ہوتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے لئے اخلاص۔ جس سے زبانوں کی اصلاح ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتی ہیں اور جس سے جوارح کی اصلاح ہوتی ہے اور وہ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کے بدلے انہوں نے ہر وہ چیز لے لی جو قلوب و ابدان کو فاسد کرتی ہے، وہ نعمتوں بھری جنت سے محروم رہے اور اس کے بدلے انہوں نے درد ناک عذاب لے لیا۔