فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے (١) تو ہمیں پکارنے لگتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرما دیں تو کہنے لگتا ہے (٢) کہ اسے تو میں محض اپنے علم کی وجہ سے دیا گیا ہوں (٣) بلکہ یہ آزمائش ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ بے علم ہیں۔ (٤)
اللہ تعالیٰ انسان کے حال اور اس کی فطرت کے بارے میں آگاہ کرتا ہے کہ جب اسے کوئی بیماری، شدت یا تکلیف پہنچتی ہے ﴿دَعَانَا﴾ تو وہ اس نازل ہونے والی مصیبت کو دور کرنے کے لئے گڑا گڑا کر ہمیں پکارتا ہے۔ ﴿ ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا ﴾ ” پھر جب ہم اسے اپنی نعمت عطا کردیتے ہیں“ یعنی جب ہم اس کی تکلیف کو دور اور اس کی مشقت کو زائل کردیتے ہیں تو وہ اپنے رب کی نا سپاسی اور اس کے احاسن کا اعتراف کرنے سے انکار ہے اور ﴿قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ﴾ ” کہتا ہے : مجھے تو یہ سب کچھ علم کے سبب دیا گیا ہے“ یعنی اللہ کی طرف سے علم کی بنا پر حاصل ہوا ہے اور میں اس کا اہل اور اس کا مستحق ہوں کیونکہ میں اس کے ہاں بہت برگزیدہ ہوں یا اس کا معنی یہ ہے کہ یہ سب کچھ مجھے مختلف طریقوں سے حاصل کئے گئے میرے علم کے سبب سے مجھے عطا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ﴾ ” بلکہ یہ ایک فتنہ ہے“ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ کون اس کا شکر گزار رہے اور کون اس کی ناشکری کرتا ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے“ اس لئے وہ فتنہ اور آزمائش کو اللہ تعالیٰ کی نوازش سمجھتے ہیں۔ ان کے سامنے خالص بھلائی اس چیز کے ساتھ مشتبہ ہوجاتی ہے جو بھلائی یا برائی کا سبب ہے۔